صدر بائیڈن کا امریکی فوج کی جانب سے غزہ کو امداد فراہم کرنے کے لیے ایک بندرگاہ تعمیر کرنے کا ڈرامائی منصوبہ، جو کہ ایک بہت بڑا لاجسٹک کام ہے، ایک سپر پاور کے طور پر امریکہ کی حیثیت اور اس کی طاقت کی حدود دونوں کی یاد دہانی ہے۔
دنیا کی کسی اور اقوام کے لیے، اگر کوئی ہوں کہ وہ اس طرح کے پرعزم منصوبے پر غور کر سکیں: ایک تیرتی ہوئی بندرگاہ جو لاکھوں ٹن امداد براہ راست ضرورت مندوں تک لے جائے گی۔
بلاشبہ اس کی تعمیر میں ابھی دو ماہ یا اس سے زیادہ کا وقت لگے گا اور شاید ہی کوئی بہترین حل ہو لیکن یہ ان کے لیے ثبوت ہے جو وائٹ ہاؤس پر مسلسل انسانی المیے کو نظر انداز کرنے کا الزام لگاتے ہیں کہ صدر بائیڈن فلسطینی عوام کی حالت زار سے اتنے ہی متاثر ہیں جتنا کہ 1600 پنسلوانیا ایونیو کے باہر پلے کارڈ لے کر کھڑا ہوا احتجاجی۔
غزہ کے ساحل پر فضا سے امداد پھینکنے کی طرح، یہ مشن بھی ان بہترین روایات سے ہم آہنگ ہے جنہوں نے تاریخی طور پر عالمی سطح پر امریکہ کے کردار کو نمایاں کیا ہے۔
مثال کے طور پر یہ 1949 کے برلن ایئرلفٹ کی یاد دلاتا ہے۔ امداد سے بھرا ایک ہسپانوی بحری جہاز(قبرص کے ساحلی شہر) لارناکا میں جانے کے لیے تیار کھڑا ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اپنا سامان کہاں اتارے گا۔ ہمیشہ کی طرح، یہ اسرائیلیوں پر منحصر ہے۔
اس کے باوجود مغربی اتحادیوں کی حمایت رکھنے والے امریکہ کے لیے یہ کبھی ضروری نہیں تھا کہ وہ اس طرح کے اقدام کا سہارا لیتا۔
اسرائیل میں داخل ہونے کے لیے زمینی راستے موجود ہیں جو اسرائیلیوں کے تعاون سے فوری طور پر زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کیے جاسکتے ہیں، لیکن وہ سپلائی لائنیں واضح طور پر مؤثر طریقے سے کام نہیں کر رہی۔
قحط پڑنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ رسد کو روک نہیں رہی اور یہ کہ لاجسٹک کے مسائل ہیں۔ دیگر کے بقول سب سے بڑی لاجسٹک رکاوٹیں زمین کے اس گنجان آباد چھوٹے سے ٹکڑے پر مسلسل بمباری کی وجہ سے ہیں۔
دریں اثنا، رفح کے آس پاس غزہ کی زندہ بچ جانے والی شہری آبادی خیموں میں بھوکی ہے اور اسرائیلی ٹینک آنے کا انتظار کر رہی ہے۔
اسی لیے یہ ہنگامی تیرتی ہوئی بندرگاہ، غزہ کے پاس کبھی فعال بندرگاہ نہیں رہی، امریکی کمزوری کی علامت ہے۔
امریکہ پر اسرائیل کے بھاری مالی، فوجی اور سفارتی انحصار کے باوجود، امریکہ موجودہ سڑکوں کے ذریعے امداد لے جانے سے قاصر ہے۔ اور صدر بائیڈن کو اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کو جنگ لڑنے کا انداز تبدیل کرنے پر راضی کرنے میں زیادہ کامیابی بھی نہیں ملی ہے۔
مسٹر نتن یاہو اور مسٹر بائیڈن دونوں ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں، اور سیاسی طور پر حقیقت پسند ہیں۔
اس کے باوجود دونوں کے درمیان ذاتی تعلقات بظاہر اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ واشنگٹن میں دو طرفہ مذاکرات کا آخری دور نائب صدر کملا ہیرس اور اسرائیل کی جنگی کابینہ میں نائب وزیراعظم اور اس سے قبل حزب اختلاف کے رہنما بینی گینٹز کے درمیان ہوا تھا۔
اطلاعات کے مطابق نتن یاہو اس دورے سے ناراض تھے۔ کسی بھی صورت میں یہ اسرائیل اور فلسطین کے عوام سمیت ان تمام متعلقہ افراد کے لیے نقصان دہ صورت حال ہے جو امن کے خواہاں ہیں۔
بائیڈن نے جنگ کے متعلق نتن یاہو سے کی جانے والی اپنی اپیلیں ترک نہیں کیں لیکن وہ ہتھیاروں کی ترسیل روکنے یا اقوام متحدہ میں اہم قراردادوں پر امریکی ویٹو نہ استعمال کرنے کی در پردہ دھمکیوں پر عمل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
اس تکلیف دہ ابہام کی عکاسی صدر کے ایم ایس این بی سی کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں ہوئی، جب انہوں نے کہا تھا کہ بظاہر اب رفح پر زمینی حملہ ان کی انتظامیہ کے لیے ’ریڈ لائن‘ ہو گا لیکن پھر کہا ’میں اسرائیل کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا۔‘
انتخابی سال میں اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کمزور ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور حتمی تجزیے میں امریکی قومی مفاد ریاست اسرائیل کے تسلسل میں مضمر ہے۔ لیکن اسرائیل کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ بیرون ملک اس کے دوستوں اور اتحادیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
برطانوی وزیر خارجہ لارڈ کیمرون نے جو زبان استعمال کی ہے، وہ عام ہے لیکن بڑھتی ہوئی مایوسی اور وہ فوری فائر بندی پر اصرار کر رہی ہے۔
یہ پریشان کن ہونے کے ساتھ یہ بھی بتا رہی ہے کہ جس فائر بندی کی دنیا اب بھی منتظر ہے، جس فائر بندی کے بارے میں مسٹر بائیڈن نے فوری ہونے کی تجویز دی تھی وہ دور ہوتی جا رہی ہے۔
موجودہ تعطل کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ مسٹر نتن یاہو نے خود کو ایک مشکل صورت حال میں پھنسا لیا ہے۔
اسرائیل کی سلامتی کا تحفظ کرنے اور سات اکتوبر کو ہوا حماس کا حملہ روکنے میں ناکامی کے باوجود، وہ اب بھی باقی قیدیوں کو رہا کروانے اور حماس کو تباہ کرنے کے قریب بھی نہیں ہیں۔
انہیں جنگ ’جیتنے‘ سے پہلے رائے دہندگان کا سامنا کرنے کا خوف ہے، اور وہ اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر تباہی ہی فتح حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ انسانیت پسندی ہمیشہ اس میں ثانوی رہی ہے اور اب بھی ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ مسٹر نتن یاہو انتظار کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی ہو اور ایک بار پھر امریکی پالیسی کو نیتن یاہو کے لیے مزید سازگار بنایا جائے، جس سے اسرائیلی وزیر اعظم کو غزہ کو کسی بھی انداز میں کنٹرول کرنے کے لیے ہر ممکن تحفظ ملے گا۔
اس تناظر میں یہ بات دوگنی تشویش کا باعث ہے کہ اسرائیلی افواج وسطی غزہ میں مشرق سے مغرب تک ایک نئی سڑک بنا رہی ہیں۔
یہ مستقبل کے کسی بھی تنازع کے دوران اسرائیل کی بکتر بند گاڑیوں کی تعیناتی کو آسان بنانے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے اور یہ خدشہ ہے کہ اس سے اسرائیل غزہ کے رہائشیوں کی شمال یا جنوب میں نقل و حرکت روکنے کے قابل ہو جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ کی دوسری صدارت میں دو ریاستی حل یا فلسطینی خودمختاری کے بارے میں کم بات ہو گی اور فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں کے متعلق زیادہ برداشت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
تاہم ان میں سے کسی بھی اقدام سے اسرائیل نہ تو اپنی سرحدوں کے اندر محفوظ محسوس کرے گا اور نہ ہی عرب پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات بڑھیں گے۔
اسرائیل ایک آزاد ریاست ہے جو اپنی بقا کی حفاظت کرنا جانتی ہے، اور ایک ایسی قوم جو اپنی ریاست کے وجود کے حق کے لیے لڑنے کے لیے تیار ہے۔
یہ ایک امریکی کالونی نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا جانا چاہیے۔ بہرحال اسرائیل کے دوستوں کو بھی بات سننے اور سنانے کا حق حاصل ہے۔
مسٹر بائیڈن کی بات درست ہے اور انہیں مزید مضبوط طریقوں سے اسرائیلی پالیسی سازوں پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔
شاید اسرائیل میں برسراقتدار لوگ یہ سمجھیں کہ سات اکتوبر کے بعد دنیا بھر میں انہوں نے جو خیر سگالی حاصل کی تھی اس کا کتنا حصہ ضائع کر دیا گیا ہے۔
آنے والے ہفتے امریکہ اور اسرائیل کے خصوصی تعلقات کے لیے ایک مشکل امتحان ثابت ہوں گے، لیکن اس سے بھی زیادہ ان لوگوں کے لیے جو رفح کی گرد آلود پناہ گاہوں میں اپنی جانوں کے خوف میں مبتلا ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent