ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اعلٰی سطح وفد کے ہمراہ پیر کو تین روز دورے پر اسلام آباد پہنچے اور آمد کی کچھ ہی دیر بعد انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔
وزیرِ اعظم آفس کے پریس ونگ سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے ملاقات کے دوران ’اگلے پانچ سالوں میں دو طرفہ تجارت کا حجم 10 ارب امریکی ڈالرز تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔‘
اس کے علاوہ ’تجارت، توانائی، روابط، ثقافت اور عوام سے عوام کے رابطوں کے شعبوں میں تعاون کو وسیع پیمانے پر بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ دونوں فریقین نے دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خطرے سمیت مشترکہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
صدر رئیسی اور وزیر اعظم شہباز شریف نے غزہ میں اسرائیلی قابض افواج کی طرف سے سات ماہ سے زائد عرصے سے طاقت کے اندھا دھند استعمال کی شدید مذمت کرتے ہوئے فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی کوششوں اور محاصرہ ختم کرنے پر زور دیا اور غزہ کے محصور عوام کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی اپیل کا اعادہ کیا۔
بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ایران پاکستان دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت اور مواصلاتی روابط بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
22 سے 24 اپریل تک تین روزہ اس دورے پر ایرانی صدر کے ہمراہ ان کی اہلیہ اور اعلیٰ سطح کا وفد بھی پاکستان کا دورہ کر رہا ہے۔
بیان کے مطابق ایران اور پاکستان کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت کا دور بھی ہو گا۔
اس سے قبل مارچ 2016 میں ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا تھا اور اب آٹھ برسوں بعد ایران کے صدر کا دورہ پاکستان ہو رہا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے جاری بیان میں بتایا تھا کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد کسی بھی سربراہ مملکت کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہو گا۔
اس سے قبل ممتاز زہرا بلوچ نے ایرانی صدر کے دورے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایرانی وفد میں وزیر خارجہ اور کابینہ کے دیگر ارکان، اعلیٰ حکام کے علاوہ ایک بڑا تجارتی وفد بھی شامل ہو گا۔
’دورے کے دوران صدر رئیسی صدر اور وزیراعظم پاکستان سے اہم ملاقاتیں کریں گے۔ ایرانی صدر چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی سے بھی ملاقات کریں گے۔‘
دفتر خارجہ بیان کے مطابق ’ایرانی صدر لاہور اور کراچی کا بھی دورہ کریں گے اور صوبائی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔ ملاقاتوں میں پاک ایران تعلقات کو مزید مضبوط بنانے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
’پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخ، ثقافت اور مذہب میں جڑے مضبوط دوطرفہ تعلقات ہیں۔ ایرانی صدر کا دورہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔‘
پاکستانی صدر سے ملاقات
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اپنے وفد کے ہمراہ پیر کو پاکستان صدر آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی جنہوں نے بعد میں ان کے اعزاز میں عشایہ دیا۔
ملاقات کے دوران صدر آصف علی زرداری نے غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی فوجی جارحیت کی شدید مذمت کی جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی جان سے گئے۔
پاکستان کے ایوان صدر کی جانب سے ایکس پر جاری بیان کے مطابق اس موقع پر ایرانی صدر نے غزہ میں جاری انسانی بحران کے دوران اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے پاکستان کی مسلسل حمایت کو سراہا۔
اس کے علاوہ پاکستانی صدر سے ملاقات میں صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینے اور مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ملاقات میں دونوں صدور نے خطے کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
دورے کا ایجنڈا
دفتر خارجہ کے بیان میں بتایا گیا کہ ’عوام سے عوام کے رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کو بڑھانے کا وسیع ایجنڈا شامل ہیں۔
’علاقائی اور عالمی پیش رفت اور دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے دوطرفہ تعاون پر بھی بات چیت ہو گی۔‘ اس کے علاوہ ’دو طرفہ ملاقاتوں میں تجارت، رابطے، توانائی، زراعت سے متعلقہ امور پر بات چیت کی جائے گی۔‘
ایرانی صدر کے تین روزہ دورے کا شیڈول
انڈپینڈنٹ اردو کو سرکاری ذرائع سے میسر معلومات کے مطابق ’ایرانی صدر پیر کو پاکستان پہنچیں گے، ریاض پیرزادہ ایرانی صدر کا ائیر پورٹ پر استقبال کریں گے۔
’دونوں وزرا خارجہ کی ملاقات دفتر خارجہ میں ہو گی۔ وزیراعظم سے بھی ایرانی صدر کی ملاقات وزیراعظم آفس میں ہو گی اور انہیں وہاں گارڈ آف آنر دیا جائے گا۔ وزیراعظم آفس میں ہی ایم او یوز سائن کیے جائیں گے۔
’دستخطی تقریب کے بعد ایرانی صدر اور وزیراعظم پاکستان خطاب بھی کریں گے۔ وزیراعظم ہاؤس میں ہی ایرانی وفد کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جائے گا۔ پیر کے روز ہی ایرانی صدر کی ملاقات صدر پاکستان سے ایوان صدر میں ملاقات ہو گی۔
منگل کے روز وہ صبح لاہور جائیں گے۔ نصف دن وہ لاہور گزاریں گے اس کے بعد کراچی روانہ ہوں گے۔ لاہور اور کراچی میں گورنر اور وزیر اعلی سے ملاقات بھی ہو گی۔
معلومات کے مطابق ایرانی وفد کی تعداد 50 افراد سے زائد ہو گی۔
دفتر خارجہ کے مطابق ’ایرانی صدر کے دورے کا مقصد دو طرفہ ملاقات ہیں۔ یہ دورہ وزیراعظم پاکستان کے دعوت پر کیا جا رہا ہے۔ دورے کا مقصد باہمی تعلق میں اعتماد کا فروغ بھی ہے۔‘
پاکستان ایران سرحدی معاملات
رواں برس جنوری میں ایران نے پاکستان کی حدود کے اندر دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کرتے ہوئے حملہ کیا جس کے جواب میں اگلے ہی پاکستان نے بلوچ علیحدگی پسند دہشت گرد گروہوں کے ایران کی سرزمین کے اندر پوشیدہ ٹھکانوں پر حملہ کر کے نو دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق سرحدی دہشت گردی اور حملوں کے باعث دونوں ممالک کے مابین طے پایا تھا کہ دونوں اطراف سے سینیئر فوجی افسران کو لائزان (رابطہ) افسر تعینات کیا جائے گا تاکہ سرحدی تنازعے جنم نہ لیں اور موقع پر ہی معاملات کو حل کر لیا جائے۔
اس مقصد کے لیے بات چیت بھی مکمل ہو چکی ہے اور لائزان افسر کی تعیناتی کا عمل مکمل ہو چکا ہے آئندہ چند روز میں نوٹفیکیشن جاری کیا جائے گا جس کے بعد لائزان افسر پاکستان ایران سرحد پر اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔
ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے اثرات کیا ہوں گے؟
سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ایرانی صدر کا دورہ اسلام آباد دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے کے علاوہ موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کا موقع فراہم کرے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینئر سفارتی صحافی شوکت پراچہ نے کہا کہ ’جب سے حکومت وجود میں آئی ہے یہ پہلا بڑا غیر ملکی دورہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی کی جو صورت حال ہے اس کے تناظر میں بھی اس لیے اہم ہے کہ سارے حالات کے باوجود ایرانی صدر بیرون ملک کا دورہ کر رہے ہیں۔
’پاکستان میں ان کی میڈیا سے بھی ملاقات متوقع ہے۔ جہاں تک بات ہے امریکی پابندیوں اور اسرائیل ایران تنازع، کیونکہ ایرانی صدر کا دورہ مہینہ پہلے سے پلان کیا گیا تھا جب ان واقعات کا وجود نہیں تھا۔ اس دورے کو دو طرفہ دورے کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔
’بیرونی دنیا کی یقینی طور پر اس دورے پہ نظر ضرور ہو گی لیکن پاکستان کو اس کا کوئی منفی اثر ملنے کا امکان کم ہے۔‘