عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے رفح میں فوجی کارروائیاں فوری طور پر روکنے کے حکم کے اگلے ہی روز اسرائیل نے ہفتے کو غزہ کی پٹی پر بمباری کی۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عالمی عدالت نے حماس کی قید میں موجود تمام افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا، جس کے چند گھنٹوں بعد اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ سے مزید تین قیدیوں کی لاشیں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
دا ہیگ میں قائم عالمی عدالت، جس کے احکامات ماننا قانونی طور پر لازم ہے لیکن اس کے احکامات کے نفاذ کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں، نے اسرائیل کو مصر اور غزہ کے درمیان رفح کراسنگ کو بھی کھلا رکھنے کا حکم دیا، جسے اس نے رواں ماہ کے اوائل میں شہر پر حملے کے آغاز پر بند کر دیا تھا۔
اسرائیل نے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ رفح کے معاملے پر اپنا طرز عمل بدل رہا ہے اور اصرار کیا کہ عدالت نے اسے غلط سمجھا ہے۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں قومی سلامتی کے مشیر زاچی ہنیگبی نے کہا کہ ’اسرائیل نے رفح کے علاقے میں ایسی فوجی کارروائیاں نہ کی ہیں اور نہ ہی کرے گا، جس سے ایسے حالات پیدا ہوں جو فلسطینی شہری آبادی کی مکمل یا جزوی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔‘
2007 سے غزہ پر حکومت کرنے والے فلسطینی گروپ حماس نے رفح کے بارے میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن جارحیت کا شکار غزہ کے باقی حصوں کو اس حکم نامے سے خارج کرنے کے فیصلے پر تنقید بھی کی۔
عدالتی فیصلے کے چند گھنٹوں بعد اسرائیل نے ہفتے کو علی الصبح غزہ کی پٹی پر حملے کیے جبکہ اسرائیلی فوج اور حماس کے مسلح ونگ کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں۔
فلسطینی عینی شاہدین اور اے ایف پی کی ٹیموں نے رفح اور وسطی شہر دیر البلاح میں اسرائیلی حملوں کی اطلاع دی ہے۔
اسرائیلی جارحیت کے باعث غزہ شہر سے بے گھر ہو کر دیر البلاح آنے والی فلسطینی خاتون اوم محمد العشکہ نے کہا: ’ہمیں امید ہے کہ عدالت کے فیصلے سے قتل عام ختم کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ پڑے گا، کیونکہ یہاں کچھ بھی نہیں بچا ہے۔‘
وسطی غزہ پٹی کے شہر میں اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے محمد صالح نے کہا: ’اسرائیل ایک ایسی ریاست ہے جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے، لہذا مجھے یقین نہیں ہے کہ فائرنگ یا جنگ طاقت کے بغیر رک جائے گی۔‘
عالمی عدالت انصاف نے اپنے اس فیصلے، جس کا انتہائی شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا، میں کہا کہ ’اسرائیل فوری طور پر رفح گورنری میں اپنی فوجی جارحیت اور کسی بھی دوسری کارروائی کو روکے جو غزہ میں فلسطینیوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اور ممکنہ طور پر ان کے مکمل یا جزوی خاتمے کا باعث بن سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے اسرائیل کو انسانی امداد کے لیے رفح کراسنگ کھولنے کا حکم بھی دیا اور غزہ میں حماس کے پاس موجود قیدیوں کی ’فوری اور غیر مشروط رہائی‘ کا بھی مطالبہ کیا۔
اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے نتیجے میں اسرائیل میں 1،170 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔
حماس نے 252 افراد کو قیدی بھی بنایا جن میں سے 121 غزہ میں موجود ہیں جن میں سے 37 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ مارے جاچکے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جارحیت میں غزہ میں 35 ہزار سے زائد فراد جان سےجا چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ جن تین قیدیوں کی لاشیں جمعے کو شمالی غزہ سے برآمد ہوئیں، ان میں اسرائیلی قیدی چنان یابلونکا، برازیلی نژاد اسرائیلی مائیکل نیسن بام اور فرانسیسی نژاد میکسیکن اورین ہرنانڈیز راڈوکس شامل ہیں، جنہیں سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کے دوران ’مارا‘ گیا اور ان کی لاشوں کو غزہ لے جایا گیا تھا۔
عالمی عدالت کا یہ حکم ایسے وقت میں آیا ہے، جب پیرس میں غزہ کے معاملے پر ایک طرف سی آئی اے کے سربراہ اور اسرائیلی نمائندوں کے درمیان الگ الگ ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور چار اہم عرب ریاستوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان بھی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔
امریکہ، مصر اور قطر کے ثالثوں پر مشتمل فائر بندی مذاکرات اسرائیل کی جانب سے رفح آپریشن شروع کرنے کے فوراً بعد ختم ہو گئے تھے، تاہم وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے اس ہفتے کہا تھا کہ جنگی کابینہ نے اسرائیلی وفد سے کہا ہے کہ وہ ’قیدیوں کی واپسی کے لیے مذاکرات جاری رکھے۔‘
اے ایف پی کے مطابق اس معاملے کے قریبی ایک مغربی ذرائع نے کہا ہے کہ سی آئی اے کے سربراہ بل برنز کی پیرس میں اسرائیلی نمائندوں سے ملاقات متوقع ہے تاکہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جا سکیں۔
قاہرہ کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے جمعے کو قطر کے وزیراعظم اور سعودی، مصر اور اردن کے وزرائے خارجہ سے ’فائر بندی پر زور دینے‘ کے لیے ملاقات کی۔
فرانسیسی صدر کے دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ انہوں نے غزہ جارحیت اور اسرائیل کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کے طریقوں پر بات چیت کی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پانچ ممالک نے ’دو ریاستی حل کے موثر نفاذ‘ پر تبادلہ خیال کیا۔
واشنگٹن نے کہا کہ اعلیٰ امریکی سفارت کار اینٹنی بلنکن نے اسرائیلی جنگی کابینہ کے وزیر بینی گینٹز سے فائر بندی کے حصول اور رفح سرحدی گزرگاہ کو جلد از جلد کھولنے کی نئی کوششوں کے بارے میں بھی بات کی۔
مئی کے اوائل میں اسرائیلی زمینی افواج نے عالمی مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے رفح میں کارروائیاں شروع کی تھیں۔
فوجیوں نے مصر کے ساتھ رفح سرحدی گزرگاہ کے فلسطینی حصے پر قبضہ کر لیا، جس سے غزہ کے 24 لاکھ افراد کے لیے امداد کی ترسیل مزید سست ہو گئی۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ جمعے کو مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ جنوبی غزہ میں داخلے کے دوسرے راستے کریم شالوم کراسنگ کے ذریعے اقوام متحدہ کی امداد کی اجازت دی جائے گی۔
امریکی فوج نے غزہ کے ساحل پر سمندر ی راستے سے امداد دینے کے لیے ایک عارضی جیٹی بھی قائم کی ہے، جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک ہفتہ قبل ’آغاز‘ کے بعد سے 97 ٹرکوں پر مشتمل امداد پہنچائی گئی۔
اقوام متحدہ کے مطابق علاقے میں سکیورٹی اور انسانی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، وہاں قحط کا خطرہ ہے، ہسپتالوں کی خدمات معطل ہیں اور تقریباً آٹھ لاکھ افراد گذشتہ دو ہفتوں میں رفح سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مارٹن گریفتھس نے کہا ہے کہ صورت حال اب ’ایک واضح موڑ‘ پر پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا کہ ’امدادی کارکنوں اور اقوام متحدہ کے عملے کو اپنے کام کو محفوظ طریقے سے انجام دینے کے قابل ہونا چاہیے۔ ایک ایسے وقت میں جب غزہ کے لوگ قحط کا شکار ہیں۔۔۔ گذشتہ سات ماہ کے دوران اٹھائی گئی آوازوں پر دھیان دینا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ قیدیوں کو رہا کریں۔ فائر بندی پر اتفاق کریں۔ یہ ڈراؤنا خواب ختم کریں۔‘