ٹرمپ کو ہرانا، ڈیموکریٹس کو ووٹ دینا امریکی مسلمانوں کا فرض نہیں

امریکی مسلمان بائیڈن اور ہیرس کو غزہ پر ان کے موقف کا جواب دہ ٹھہرانے کے لیے ٹرمپ کی ایک اور صدارت، نسل پرستی اور امیگریشن کی پابندیوں کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔ یہ پاگل نہیں، بہادری ہے۔

سابق امریکی صدر اور 2024 کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ 20 جولائی، 2024 کو گرینڈ ریپڈز، مشی گن ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں (جم واٹسن / اے ایف پی)
 

امریکہ میں مسلمان تاریخی طور پر ایک بڑی تعداد میں ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتے رہے ہیں لیکن 2024 میں یہ صورت حال صدر جو بائیڈن اور نائب صدر ہیرس کی اکتوبر سے اسرائیل کو غیر متزلزل فوجی حمایت کی وجہ سے بدل گئی ہے۔

بہت سے غیر مسلم ووٹروں کے لیے بائیں بازو پر یہ ایک افسوس ناک خیال ہے۔ ٹرمپ کے تعصب، کٹر نسل پرستی، اسقاط حمل پر پابندیوں اور مسلمانوں سے کھلی نفرت کے چار مزید سال غزہ کی حمایت کے طور پر؟ سوشل میڈیا کارکن غصے سے لکھتے ہیں، ’ہوش میں آؤ۔ ہیرس کا متبادل ناقابل تصور ہے۔ مسلمانوں پر پابندی یاد ہے؟ کیا آپ لوگ پاگل ہیں؟‘

یہ غیظ و غضب غلط ہے۔

پیارے بائیں بازو کے مایوس ووٹرو: اسے امریکی مسلمانوں پر نہ ڈالو۔ اسے اس برادری پر نہ ڈالو جسے امریکہ نے لگ بھگ 25 سال تک نفرت اور ذلت کا نشانہ بنایا ہے۔

امریکہ میں مسلمان ایک چھوٹی آبادی نہیں ہیں اور سیاست دان یہ سمجھنے میں سستی کر رہے ہیں کہ انہیں نظرانداز کرنا نقصان دہ ہوگا۔ مشی گن جیسی سوئنگ ریاستیں نے، جن کی بڑی مسلم آبادی ہے، 2020 میں ڈیموکریٹس کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔

حالانکہ آبادی کے شدہ دستیاب اعداد و شمار پرانے ہیں، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں تقریباً 40 لاکھ مسلمان آباد ہیں اور 2040 تک اسلام یہودیت سے آگے بڑھ کر امریکہ میں دوسرا بڑا مذہب بننے والا ہے۔ یہ صرف چار صدارتی ادوار کی دوری پر ہے۔

لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے باوجود، پیو ریسرچ سینٹر کی 2014 سے 2019 کے درمیان کی تین مختلف سرویز کے مطابق، مسلمان مسلسل ملک میں سب سے ناپسندیدہ مذہبی گروپ کے طور پر شمار کیے گئے۔

2017 میں اسی مرکز کی ایک رپورٹ نے کہا کہ ٹرمپ حکومت کے پہلے چند ماہ کے دوران، تقریباً نصف مسلم امریکی بالغوں نے کہا کہ انہوں نے پچھلے سال میں اپنی مذہب کی وجہ سے کسی نہ کسی قسم کے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔

جب ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی بےباکی سے کھلم کھلا مسلم نفرت کا پرچار کیا، تو یہ بات بہت حیرت انگیز تھی کہ ابھی بھی امریکہ کے مسلمان ٹرمپ کی ایک اور صدارت کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔ یہ پاگل پن نہیں ہے، یہ بہادری ہے۔ یہ وہ قسم کی ہمت ہے جو طویل مدت میں جمہوریت کو اور مسلمانوں کے مستقبل کو بچائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے جیسے لوگوں کے لیے جو نائن الیون کے سائے میں بڑے ہوئے ہیں، 2024 کا غزہ اور اس کے بیانیے نے امریکہ میں نسل پرستی اور انسانیت سوزی کو اجاگر کر دیا ہے۔

2004  میں، میں نے امریکہ کی سب سے لبرل ریاست میساچوسیٹس کے ایک کالج میں داخلہ لیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کب اسے اندرونی طور پر قبول کیا اور کب یہ بات مضحکہ خیز ہوئی کہ نائن الیون کے بعد کے مہینوں میں، یہ مکمل طور پر قابل قبول تھا کہ مسلم خاندانوں کو ہوائی اڈوں پر قطاروں میں سے کھینچ کر باہر نکالا جائے۔

دہشت زدہ والدین کو ان کے بچوں کے ساتھ ایک طرف لے جایا جاتا اور سب کو چیخ چیخ کر احکامات دیے جاتے اور وہ کاغذات کو سنبھالنے کی کوشش کرتے جو انہوں نے ہفتوں پہلے بڑی محنت سے اکٹھے کیے ہوتے تھے۔ وہ کاغذات جو ثابت کرتے تھے کہ وہ عام لوگ ہیں، بےگناہ ہیں اور امریکہ سے محبت کرتے ہیں۔

کچھ ہفتے پہلے میں اپنے چار سالہ بیٹے کے ساتھ امریکہ میں امیگریشن قطار میں کھڑی ہوئی تو مجھے وہی بیمار کن تشویش لاحق ہو گئی جو میرے کالج کے پہلے سال سے تھی جب میں امیگریشن افسر کے پاس جایا کرتی تھی۔

یہ ایک تشویش ہے جو میں اپنے بیٹے کو منتقل نہیں کرنا چاہوں گی۔

امریکی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ نسل پرستی، امیگریشن پر پابندی اور غیر انسانی سلوک کے مزید چار سال برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ واشنگٹن کے سیاسی فوجی کمپلیکس کو دنیا میں مسلمان بچوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی نہ ملے۔

وہ لوگ جو اتنے غصے میں ہیں کہ مسلمان ڈیموکریٹک ووٹر غزہ کی وجہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے، وہ حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کا مطلب نہیں سمجھتے۔ ٹرمپ کے چار مزید سال یقیناً ایک ڈراؤنے خواب کی طرح لگتے ہیں، لیکن یہ چار سال ہیں۔

یہ ایک ایسی کمیونٹی سے سیاسی طاقت کی اصل اور علامتی حصول کی کوشش ہے جسے امریکہ نے دہائیوں تک ذلت میں ڈبوئے رکھا ہے۔ اور یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ صرف چار سال کی بات نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ بتانا ہے کہ اس بار آپ کو ہمارا ووٹ نہیں ملے گا چاہے دوسرا امیدوار کوئی بھی ہو۔

امریکی مسلمان کہہ رہے ہیں کہ واشنگٹن کے سیاسی فوجی کمپلیکس کو دنیا میں مسلمان بچوں کے قتل عام پر استثنیٰ نہ ملے، یہ یقینی بنانے کے لیے نسل پرستی، امیگریشن پابندیوں اور انسانیت سوزی کے مزید چار سال لگیں گے۔

امریکی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ نسل پرستی، امیگریشن پر پابندی اور غیر انسانی سلوک کے مزید چار سال برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ واشنگٹن کے سیاسی فوجی کمپلیکس کو دنیا میں مسلمان بچوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی نہ ملے۔

شاید پھر 2028 میں بیانیہ اور امیدوار زیادہ سمجھ دار ہوں گے۔ چار سال کا وقفہ لمبا اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے لیکن ہم اسے مغرب کے شرمناک مسلم مخالف دور کے آخری اور خوفناک باب کے طور پر سوچنے کے لیے سیکھ سکتے ہیں۔ ہم اس کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ہم پہلے ہی رہ چکے ہیں۔

شاید اس کے بعد، 2028 میں، بیانیہ اور امیدوار زیادہ سمجھ دار ہوں گے. یہ چار سالہ سفر طویل اور تکلیف دہ ہوسکتا ہے لیکن ہم اسے مغرب کے شرمناک مسلم مخالف دور کا آخری اور خوفناک باب سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

ہم اسے برداشت کر سکتے ہیں۔ پہلے ہی کر رہے ہیں۔

بشکریہ عرب نیوز پاکستان

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

کالم نگار امل خان عرب نیوز پاکستان کے ادارتی صفحے کی ایڈیٹر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر