امریکی سینیٹ: پاکستان اور چین کے خلاف انڈیا کا دفاع مضبوط کرنے کا بل پیش

امریکہ کے با اثر سینیٹر مارکو روبیو نے جمعے کو امریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا ہے، جس میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور پاکستان کی جانب سے مبینہ خطرات سے نمٹنے کے لیے انڈیا کی مدد کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

19 جولائی 2023 کو واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کیپیٹل ہل میں واقع امریکی سینیٹ کے ایوان کا ایک منظر (اے ایف پی)

امریکہ کے با اثر سینیٹر مارکو روبیو نے جمعے کو امریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا ہے، جس میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور پاکستان کی جانب سے مبینہ خطرات سے نمٹنے کے لیے انڈیا کی مدد کرنے پر زور دیا گیا ہے۔

’یو ایس انڈیا ڈیفنس کوآپریشن ایکٹ‘ کے نام سے پیش کیے گئے اس مجوزہ بل میں امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ’پاکستان کی جانب سے انڈیا کے خلاف دہشت گردی اور پراکسی گروپس سمیت جارحانہ طاقت کے استعمال کے بارے میں کانگریس کو رپورٹ پیش کرے۔‘

اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ’اگر پاکستان نے انڈیا کے خلاف دہشت گردی کی سرپرستی کی ہے تو اسے سکیورٹی امداد حاصل کرنے سے روکا جائے۔‘

مجوزہ بل انڈیا کو ’ٹیکنالوجی کی منتقلی‘ کی پرزور حمایت کرتا ہے اور امریکی انتظامیہ پر ’انڈیا کے ساتھ ایسا سلوک رکھنے، جیسا وہ جاپان، اسرائیل، جنوبی کوریا اور نیٹو ممبران جیسے امریکی اتحادیوں کی حیثیت رکھتا ہو‘ پر زور دیتا ہے۔

فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے رپبلکن سینیٹر مارکو روبیو جو 2011 سے اپنی نشست پر فائز ہیں، نے یہ بل جمعے کو پیش کیا، جسے بعد ازاں سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ امور کو بھیج دیا گیا ہے۔

اگرچہ موجودہ کانگریس، جو اس سال اپنا سیشن ختم کر رہی ہے، میں اس بل کے آگے بڑھنے کا امکان نہیں ہے لیکن انڈیا ۔ امریکہ تعلقات کو بڑھانے کے لیے دو طرفہ حمایت کے پیش نظر اسے آئندہ منتخب ہونے والی کانگریس میں دوبارہ پیش کیا جانے کا امکان موجود ہے۔

پاکستان پر ممکنہ اثرات

اگر اس قانون کو نافذ کیا جاتا ہے تو پاکستان کے لیے اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب اسلام آباد اور واشنگٹن اپنے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

انڈیا کو امریکہ کے قریبی اتحادیوں اور نیٹو کے ارکان کے لیے خاص طور پر مخصوص جدید ہتھیاروں کی فراہمی پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور خطے میں انڈین جارحیت کا جواب دینے کی اس کی صلاحیت کو محدود کر سکتی ہے۔

بل کا استدلال ہے کہ چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ اور انڈیا کی شراکت داری بہت ضروری ہے اور یہ نئی دہلی کے ساتھ واشنگٹن کے ’سٹریٹیجک سفارتی، اقتصادی اور فوجی تعلقات‘ کو بڑھانے کی تجویز پیش کرتا ہے۔

سینیٹر مارکو روبیو نے کہا کہ مجوزہ قانون سازی ’پالیسی کا بیانیہ مرتب کرے گی کہ امریکہ اپنی علاقائی سالمیت کو بڑھتے ہوئے خطرات کے جواب میں انڈیا کی حمایت کرے گا، دشمنوں کو روکنے کے لیے انڈیا کو ضروری حفاظتی مدد فراہم کرے گا اور دفاع، خلائی، ٹیکنالوجی، ادویات اور اقتصادی سرمایہ کاری کے حوالے سے انڈیا کے ساتھ تعاون کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ بل تجویز کرتا ہے کہ انڈیا کو Countering America’s Adversaries Through Sanctions Act یعنی CAATSA (کاٹسا) پابندیوں سے محدود چھوٹ فراہم کی جائے، جو امریکی پابندیوں کا ایک مجموعہ ہے اور جس کا مقصد روس کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔

کاٹسا پابندیاں روسی دفاع اور انٹیلی جنس کے شعبوں کو نشانہ بناتی ہیں اور ان شعبوں کے ساتھ اہم لین دین کرنے والے ممالک کو ثانوی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مجوزہ استثنیٰ سے انڈیا کو امریکی پابندیوں کا سامنا کیے بغیر انڈین فوج کے زیر استعمال روسی آلات خریدنے کی اجازت ہو گی۔

اس بل کے مطابق ’یہ امن اور استحکام کے مفاد میں ہے اور انڈیا کے پاس خطرات کو روکنے کے لیے درکار صلاحیتیں موجود ہیں۔‘

اس بل میں سیکرٹری آف سٹیٹ کو یہ اختیار دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ انڈیا کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے اور دو سال کے لیے انڈیا کو اضافی دفاعی سامان کی فراہمی کے لیے ایک یادداشت پر دستخط کرے۔

انڈیا اور امریکہ کے مابین گذشتہ برس جون میں دفاعی صنعت میں تعاون کے ایک معاہدے پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کیونکہ انڈیا، چین کے ساتھ تناؤ کے پیش نظر ہتھیاروں کے اپنے اہم سپلائر روس پر سے انحصار کو کم کرنا چاہتا ہے۔

دوسری جانب جوہری توانائی کے حامل پڑوسی ممالک پاکستان اور انڈیا کے درمیان بھی وقتا فوقتاً لفظی کشیدگی اور تناؤ کی صورت حال سامنے آتی رہتی ہے۔

گذشتہ روز ہی کارگل جنگ کو 25 سال مکمل ہونے پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کے وزیراعظم نریندرمودی نے الزام عائد کیا کہ پاکستان ’دہشت گردی‘ اور ’پراکسی وار‘ کے ذریعے اپنی اہمیت برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن اس کے ’ناپاک منصوبے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔‘

انڈین وزیر اعظم کے پاکستان سے متعلق بیان کو دفتر خارجہ نے ’جارحانہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ نریندر مودی نے اپنے بیان میں جنگجو رویے اور نام نہاد بہادری کا سہارا لیا ہے تاہم یہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دیرینہ تنازعات، خاص طور پر جموں و کشمیر کے بنیادی تنازعات کے حل کے لیے مکمل طور پر غیر معقول ہیں۔

مزید کہا گیا کہ ’دہشت گردی کے لیے دوسروں کو بدنام کرنے کے بجائے، انڈیا کو غیر ملکی علاقوں میں ٹارگٹڈ قتل، تخریب کاری اور دہشت گردی کی اپنی مہم کو زیر غور لانا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان