ایران اور اس کے علاقائی اتحادیوں نے جمعرات کو حماس اور حزب اللہ کے رہنماؤں کی موت کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا، جس سے علاقائی تناؤ بڑھ گیا ہے۔
حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کی آخری رسومات جمعرات کو ایران کے دارالحکومت تہران میں ادا کی گئیں، جہاں وہ 31 جولائی کی صبح ایک حملے میں قتل کر دیے گئے تھے۔
بعد ازاں اسماعیل ہنیہ کا جسد خاکی قطر لے جایا گیا، جہاں وہ رہائش پذیر تھے اور جہاں آج ان کی تدفین کی جائے گی۔ حماس نے جمعے کو فلسطینی علاقوں اور پورے خطے میں ’شدید غصے کا دن‘ قرار دیا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے لبنانی گروپ کے اعلیٰ فوجی کمانڈر فواد شُکر کی آخری رسومات کے دوران خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور اس کے پیچھے موجود عناصر ’ہمارے ناگزیر جواب کا انتظار کریں۔‘
جنوبی بیروت میں ایک حملے میں فواد شکر کی موت کے ایک روز بعد حسن نصراللہ نے اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’آپ نہیں جانتے کہ آپ نے کون سی حدیں عبور کی ہیں۔‘
اسرائیل، جس کا کہنا ہے کہ فواد شکر کو گذشتہ ہفتے گولان کی پہاڑیوں پر ہونے والے مہلک راکٹ حملے کے جواب میں قتل کیا گیا، نے جمعرات کو اپنے مخالفین کو متنبہ کیا تھا کہ انہیں کسی بھی ’جارحیت‘ کی ’بہت بڑی قیمت‘ ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اچھی طرح سے تیار ہے۔ جو لوگ ہم پر حملہ کریں گے، ہم بدلے میں ان پر حملہ کریں گے۔‘
حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ایرانی حکام نے بدھ کو تہران میں ’مزاحمتی محور‘ کے نمائندوں سے ملاقات کی۔
ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’دو منظرناموں پر تبادلہ خیال کیا گیا: ایران اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے بیک وقت ردعمل یا ہر فریق کی طرف سے ایک الگ جواب۔‘
یمن کے حوثی باغیوں کے سربراہ نے اسرائیل کی ’بڑی کشیدگی‘ کا ’عسکری جواب‘ دینے کا عہد کیا ہے۔
تجزیہ کاروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ جوابی کارروائی محدود ہو گی تاکہ بڑی جنگ سے بچا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی میں حزب اللہ کے حوالے سے محقق اور لیکچرر امل سعد کا کہنا ہے کہ ’ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروپ ممکنہ طور پر جنگ سے بچنے کی کوشش کریں گے جب کہ اسرائیل کی اس نئی پالیسی کو بھی سختی سے روکیں گے۔‘
تہران میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے یکم اگست کو اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس سے قبل ان کے قتل کے بدلے ’سخت سزا‘ کی دھمکی دی تھی۔
اے ایف پی کے نامہ نگار نے خبر دی کہ تہران یونیورسٹی میں شروع ہونے والے جلوس کے شرکا بشمول سیاہ برقعے میں ملبوس خواتین نے اسماعیل ہنیہ کے پوسٹرز اور فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے۔
ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن کی تصاویر کے مطابق صدر مسعود پزشکیان اور پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی سمیت سینیئر ایرانی حکام نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔
ایران کے پاسداران انقلاب نے ایک روز قبل اعلان کیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ اور ان کا ایک محافظ بدھ (31 جولائی) کو علی الصبح تہران میں ان کی رہائش گاہ پر ہونے والے حملے میں قتل ہوگئے تھے۔
تاہم نیویارک ٹائمز نے دو ایرانی عہدیداروں سمیت نامعلوم ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ دھماکہ کئی ماہ قبل نصب کیے گئے دھماکہ خیز مواد کی وجہ سے ہوا تھا۔
اس رپورٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’فواد شکر کے قتل کی رات اسرائیل نے پورے مشرق وسطیٰ میں کوئی دوسرا فضائی حملہ نہیں کیا۔‘