حماس کے نئے سربراہ اور اسرائیل کے ’قیدی نمبر 1‘ یحییٰ سنوار کون ہیں؟

حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار کی زندگی پر ایک نظر، جنہوں نے اسرائیلی جیلوں میں 22 سال گزارے اور وہ مبینہ طور پر سات اکتوبر کے حملوں کے منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے۔

فلسطینی تنظیم حماس نے منگل کو اعلان کیا ہے کہ ان کے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار ہوں گے۔

اس سے قبل اس عہدے پر اسماعیل ہنیہ فائز تھے، مگر انہیں گذشتہ ہفتے تہران میں ایک مبینہ اسرائیلی حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ 

61 سالہ یحییٰ سنوار کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے چند منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے۔

اس کے بعد سے غزہ پر حملے کے دوران اسرائیل انہیں تلاش کرنے کی ناکام کوششیں کرتا رہا ہے۔ 

میڈیا رپورٹوں کے مطابق غزہ پر حملہ آور اسرائیلی فوج ڈرونز، حساس جاسوسی آلات اور انسانی انٹیلی جنس کی مدد سے سنوار کو تلاش کر رہی ہے لیکن ابھی تک ان کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔

ممکنہ طور پر وہ غزہ کی زیرِ زمین سرنگوں میں کہیں روپوش ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حماس کی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے برسوں تک کام کرنے والے اور ایران کے سمجھے جانی والے یحییٰ سنوار کا انتخاب اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ حماس غزہ میں اسرائیل کی جنگ سے ہونے والی 10 ماہ کی تباہی اور سنوار کے پیش رو اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد بھی لڑائی جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔

اس سے اسرائیل کے بھی مشتعل ہونے کا امکان ہے، جس نے اسے سات اکتوبر کے حملے کے بعد سنوار کو اپنی ہٹ لسٹ میں سب سے اوپر رکھا ہے۔

سنوار کی نامزدگی کا اعلان ایسے وقت میں ہوا ہے کہ خطے میں صورتِ حال غیر مستحکم ہے۔

ایران نے ہنیہ کے قتل پر اسرائیل سے بدلہ لینے کا عہد کیا ہے اور لبنان کی حزب اللہ نے گذشتہ ہفتے بیروت میں ایک فضائی حملے میں اسرائیل کی جانب سے اپنے ایک اعلیٰ کمانڈر کی ہلاکت پر جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔

 اسرائیل نے نے سنوار کو ’ختم‘ کرنے کا عہد کر رکھا ہے جبکہ وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے ان کا موازنہ ہٹلر سے کیا تھا۔ 

غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران میں اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں یحییٰ سنوار کا نام سب سے زیادہ منظرِ عام پر آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ تبادلہ انہی کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔

اگرچہ حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات مصر اور قطر میں ہوئے ہیں لیکن نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سنوار کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ مذاکرات کاروں کو ان کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔

حماس کے رکن اور سیاسی تجزیہ کار صلاح الدین العواودہ نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ سنوار سے مشورہ کیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

العواودہ 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں اسرائیل میں قید کے دوران سنوار کے دوست بن گئے تھے۔ 

انہوں نے کہا کہ سنوار ’کسی قسم کے مینیجر یا ڈائریکٹر نہیں ہیں، وہ ایک رہنما ہیں۔‘

اسرائیل کو سب سے مطلوب شخص

اسرائیلی ڈیفنس فورس کے ترجمان ریئر ایڈمرل دانیال ہاغاری نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا، ’اس حملے کا فیصلہ یحییٰ سنوار نے کیا تھا۔ اس لیے وہ اور ان کے ساتھی مردہ ہیں‘ یعنی اسرائیل انہیں مارنے پر تل گیا ہے۔

سنوار کے ساتھیوں میں محمد ضیف شامل ہیں جو حماس کے ملٹری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر ہیں۔

گذشتہ ہفتے اسرائیل کے محمد ضیف کے مارے جانے کا دعویٰ کیا تھا مگر حماس نے اس کی تردید کی ہے۔

یورپین کونسل آن فارن ریلیشنز (ای سی ایف آر) کے سینیئر پالیسی فیلو ہیو لوواٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خیال ہے کہ اگرچہ سات اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی کے پیچھے ضیف کا دماغ تھا کیونکہ یہ ایک فوجی آپریشن تھا، لیکن سنوار ’ممکنہ طور پر اس گروپ کا حصہ تھے جس نے اس کی منصوبہ بندی کی۔‘

پچھلے سال دسمبر میں انہوں نے غزہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حماس اسرائیل پر ایک شدید حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا، ’ہم انشاء اللہ ایک طوفان کی شکل میں تم پر برسیں گے۔ ہم آپ پر لامتناہی راکٹ برسائیں گے، ہم فوجیوں کا لامحدود سیلاب آپ کے پاس آئیں گے، ہم اپنے لاکھوں لوگوں کے ساتھ آپ کے پاس آئیں گے۔‘

اسرائیل میں سنوار کے خلاف نفرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اسرائیلی گلوگارہ رینات بار نے آئی ڈی ایف کے فوجیوں کے سامنے پرفارم کرتے ہوئے عربی گیت ’یا بنت السلطان‘ کے بول بدل کر گائے جس میں انہوں نے کہا، ’یا یحییٰ سنوار، آپ کل مر جائیں۔‘

سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سنوار کا ایک بیان منظرعام پر آیا تھا جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا، ’قابض رہنماؤں کو جان لینا چاہیے کہ سات اکتوبر صرف ریہرسل تھی۔‘

’ہیلو، میں یحییٰ سنوار ہوں، تم یہاں محفوظ ہو‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو قید کی جانے والی اور دو ہفتے بعد رہا ہونے والی ایک 85 سالہ اسرائیلی خاتون نے 29 نومبر کو کہا کہ وہ قید کے دوران غزہ کے رہنما یحییٰ سنوار سے ملی تھیں اور ان سے پوچھا تھا کہ انہوں نے میرے جیسے امن کارکنوں پر حملہ کیوں کیا۔

85 سالہ یوشیود لیفشیٹز کو اسرائیل میں ان کے گاؤں نیر اوز سے سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے پکڑ کر غزہ میں قید کر لیا تھا۔

انہوں نے اسرائیلی اخبار داوار کو بتایا کہ ان کا سامنا سنوار سے اس وقت ہوا جب وہ یرغمالیوں سے ایک زیر زمین سرنگ میں ملے جہاں حماس نے انہیں یرغمال بنا رکھا تھا۔

اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق رہا ہونے والی ایک اور خاتون قیدی نے بتایا کہ سنوار اس سرنگ میں آ پہنچے جہاں انہیں اور دوسرے قیدیوں کو رکھا گیا تھا اور ان سے حال احوال پوچھا، اور انہیں رواں عبرانی میں بتایا کہ انہیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

ایکس کی صارف Haya نے ایک پوسٹ میں لکھا، ’رہا ہونے والے اسرائیلی جنگی قیدیوں میں سے ایک نے بتایا کہ یحییٰ سنوار داخل ہوئے اور عبرانی زبان میں ان سے اپنا تعارف کرایا، ’ہیلو، میں یحییٰ سنوار ہوں اور تم یہاں محفوظ ہو، تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔‘

اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق اسرائیلی سکیورٹی اداروں نے بھی اسرائیلی قیدی کے اس بیان کی تصدیق کی تھی۔

اسرائیلی جیلوں میں 22 برس

61 سالہ یحییٰ سنوار کو ابو ابراہیم بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی جیلوں میں 22 برس گزارے ہیں۔

وہ 2011  تک اسرائیل کی ایک جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کے بدلے میں دوسرے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انہیں بھی رہائی مل گئی۔

گیلاد شالت کو حماس نے 2006 میں غزہ کی حدود میں گھات لگا کر قید کر لیا تھا جس کے عوض اسرائیل نے 1027 قیدیوں کو رہا کیا جن میں سینکڑوں ایسے فلسطینی بھی شامل تھے، جنہیں اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے خلاف حملوں کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔

رہائی کے چھ برس بعد سنوار کو فروری 2017 میں ایک خفیہ انتخابی عمل کے بعد اسماعیل ہنیہ کی جگہ حماس کے عسکری دھڑے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ہنیہ بعد میں حماس کے سربراہ بن گئے تھے۔

’قیدی نمبر 1‘

اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی شین بیت کے ایک اہلکار یارون بلم نے یحییٰ سنوار کے انتخاب کے بعد اسرائیل ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یحییٰ کو ’قیدی نمبر 1 کی حیثیت حاصل تھی۔‘

بلم نے یہ بھی کہا تھا کہ ’سنوار سحرانگیز شخصیت کے مالک ہیں اور بدعنوان نہیں ہیں۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ سنوار عمل پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت بہت مشکل ہو گی۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ایہود یاری کے مطابق سنوار جیل میں خود کو بطور رہنما منوانے میں کامیاب ہو گئے اور ان کی خاطر جیل حکام سے مذاکرات کرنے اور قیدیوں میں نظم و ضبط قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق جیل میں سنوار سے پوچھ گچھ کرنے والے ایک سابق اسرائیلی تفتیش کار نے کہا کہ جیل میں قید کے دوران ’سنوار نے کسی بھی اسرائیلی سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ دوسرے قیدیوں کو خود سزا دیا کرتے تھے جو اسرائیلیوں سے بات کرتے تھے۔‘

تفتیش کار کا کہنا تھا کہ ’وہ 1000 فیصد پرعزم اور 1000 فیصد پرتشدد شخص ہیں۔‘

لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ گارڈین نے لکھا کہ سنوار ’ایک تیز دماغ کے ساتھ ایک ذہین سیاسی کارکن بھی ہیں۔‘

گارڈین کے مطابق جس طریقے سے سنوار رہا ہوئے اس سے انہوں نے اپنے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو رہا کرنے کا واحد راستہ اسرائیلی فوجیوں کی گرفتاری ہے۔

اس وقت سنوار سے ملاقات کرنے والے ایک صحافی نے گارڈین کو بتایا کہ ’سنوار کی توجہ اس قدر مرکوز تھی کہ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے لیے بقیہ دنیا کوئی وجود ہیں نہیں رکھتی۔‘

عبرانی زبان میں مہارت

ایہود یاری کہتے ہیں کہ سنوار عبرانی اخبار پڑھا کرتے تھے اور ان سے ہمیشہ عبرانی میں بات کرتے تھے۔

عبرانی زبان میں ان کی مہارت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ 2011 میں رہا ہونے سے چند ماہ قبل انہوں نے عبرانی زبان میں انٹرویو دیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکام کی نظروں میں وہ ’اعتدال پسند‘ ہو گئے تھے۔

فنانشل ٹائمز نے اسرائیلی انٹیلی جنس تنظیم شین بیت کی طرف سے سنوار سے پوچھ گچھ کرنے والے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ سنوار جیل میں ’ولادی میر جابوٹنسکی، میناخم بیگن اور اسحٰق رابن جیسی اسرائیلی شخصیات کے بارے میں کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔‘

عبرانی پر عبور اور اسرائیلی جیلوں میں طویل عرصہ گزارنے کی وجہ سے سنوار خود کو اسرائیلی سیاست اور ثقافت کے ماہر سمجھتے ہیں۔

چھتوں سے رِستے پانی کی ٹپ ٹپ

سنوار کے خاندان کا تعلق فلسطینی گاؤں المجدل عسقلان سے ہے، جہاں سے اسرائیل نے 1948 میں فلسطینیوں کو بےدخل کر دیا تھا۔ اب یہ علاقہ اسرائیلی شہر عسقلان کا حصہ ہے۔

سنوار سات اکتوبر 1962 کو خان یونس میں پیدا ہوئے تھے۔ ابھی ان کی عمر پانچ برس تھی کہ اسرائیل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔

وہ اپنی کتاب ’کانٹے اور پھول‘ (الشوک و القرنفل) میں لکھتے ہیں کہ ’1967 کی سردیاں بہت بھاری گزریں، بہار آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی کہ اچانک بارش شروع ہو گئی اور غزہ شہر کے مہاجر کیمپ کے کچے گھر پانی میں ڈوب گئے۔۔۔ سیلابی پانی ہمارے گھر میں داخل ہو گیا۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ اس وقت وہ گھر میں اپنے بڑے تین بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ موجود تھے جو سیلاب سے خوفزدہ ہو گئے۔

’میرے والد اور والدہ نے فرش گیلا ہونے سے پہلے ہمیں بازوؤں میں اٹھا لیا۔ میری ماں نے گھر میں پانی داخل ہونے سے پہلے بستر اٹھا لیا۔ میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے میں اپنی ماں کے ساتھ چمٹ گیا۔

’رات کو میری ماں چھت کے نیچے ایلومینیم کے برتن رکھتی تھی تاکہ چھت سے ٹپکتی بوندیں ان میں گریں۔

’میں جب بھی سونے کی کوشش کرتا، تو پانی کی ٹپ ٹپ مجھے سنائی دیتی۔ جب برتن بھر جاتے تو میری ماں انہی خالی کر دیتی۔‘

نوجوانی ہی میں سنوار نے غزہ میں اخوان المسلمون کی تحریک میں شمولیت اختیار کی، جس کا نام 1987 کے آخر میں بدل کر حماس تحریک میں تبدیل ہو گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سنوار نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور عربی زبان میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔  

یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وہ اخوان المسلمون کے سٹوڈنٹ ونگ ’اسلامی بلاک‘ کے سربراہ بھی رہے۔

سنوار 1985 میں اخوان المسلمون کے سکیورٹی ونگ کے بانیوں میں سے ایک تھے، جسے ’مجد‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف غزہ کی پٹی میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔

جیل سے سیکھا گیا سبق

سنوار ویسے تو میڈیا سے دور رہے ہیں لیکن انہوں نے بعض اہم مواقعوں پر بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ پریس کانفرنسیں بھی منعقد کی ہیں۔

امریکی ادارے این پی آر کے نامہ نگار ڈینیئل ایسٹرن نے 2018 میں ایسی ہی ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

ان کے مطابق سنوار نے کہا کہ وہ اپنی حکمتِ عملی اسرائیل کی جیلوں میں سیکھے گئے سبق کی مدد سے تشکیل دیتے ہیں۔ سنوار نے بتایا تھا کہ ’جیسے جیل میں قیدی اپنے حقوق کے لیے بھوک ہڑتال کرتے ہیں، ویسے ہی فلسطینی غزہ کے حالات میں بہتری کے لیے اپنے جیلروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘

ایسٹرن کہتے ہیں کہ حماس کے مستقبل کا دارومدار بہت حد تک سنوار پر ہے، اس لیے اسرائیل، جس نے حماس کو ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، سنوار کو اپنی ہٹ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔

اسرائیل کی سنوار کو سمجھنے میں ناکامی

اسرائیل کے پاس سنوار سے نمٹنے کا تقریباً 40 سال کا تجربہ ہے، تاہم وہ سنوار کو سمجھ نہیں پائے اور اسی وجہ سے وہ اطمینان کے جھوٹے احساس میں مبتلا ہو گئے۔

سات اکتوبر کے حملے سے قبل اسرائیل سنوار کو ایک ’خطرناک انتہا پسند‘ کے طور پر دیکھتا تھا، البتہ ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے انہیں حقیقی خطرہ نہیں سمجھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سنوار کی توجہ غزہ میں حماس کی حکمرانی کو مضبوط کرنے اور معاشی مراعات حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔

فاکس نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر میں فلسطینی سٹڈیز فورم کے سربراہ مائیکل ملسٹائن نے کہا کہ ’سنوار حماس رہنماؤں کی دوسری نسل کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے پاس نہ صرف غزہ کے معاملات بلکہ پوری تحریک کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا