یحییٰ سنوار، جنہوں نے آخری لمحے ڈرون کو لکڑی سے گرانے کی کوشش کی

اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو قتل کر دیا ہے جو مبینہ طور پر سات اکتوبر حملے کے منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے۔

یحییٰ سنوار 24 مئی 2021 کو غزہ میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران (اے ایف پی)

اسرائیل اور مغربی میڈیا نے جمعرات کو دعویٰ کیا کہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو غزہ میں قتل کر دیا گیا ہے۔ 

اسرائیلی فوج نے ایک ڈرون ویڈیو جاری کی ہے جس میں مبینہ طور پر یحییٰ سنوار کے آخری لمحات دکھائے گئے ہیں۔ اس ویڈیو میں گولہ باری سے تباہ شدہ عمارت کے ایک کمرے میں ایک آدمی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، جس کا چہرہ کپڑے سے ڈھکا ہوا ہے، ہاتھ زخمی ہے اور اس کا بدن عمارت پر گولہ باری کی وجہ سے مٹی سے اٹا ہوا ہے، وہ ڈرون کو ایک لکڑی پھینک کر مار گرانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے کہا کہ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے عمارت پر ایک اور گولہ داغا، جس سے عمارت گر گئی جس سے سنوار کی موت واقع ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ سنوار کے پاس بلٹ پروف جیکٹ، دستی بم اور 40 ہزار شیکل (10,707 امریکی ڈالر) موجود تھے۔

اے پی کے مطابق آن لائن گردش کرنے والی تصاویر میں سنوار کی شباہت کے ایک شخص کو دیکھا جا سکتا ہے، جن کے سر پر زخم ہے اور انہوں نے فوجی انداز کی جیکٹ پہن رکھی ہے اور وہ ملبے کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق دانتوں کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یحییٰ سنوار ہی ہیں۔

سنوار سالہال سال اسرائیلی قید میں رہے ہیں، اس لیے اسرائیل کے پاس ان کا تفصیلی میڈیکل ریکارڈ موجود ہے۔ 

سات اکتوبر کے حملے کے ’منصوبہ ساز‘

یحییٰ سنوار اگست میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ اس سے قبل اس عہدے پر اسماعیل ہنیہ فائز تھے، مگر انہیں اگست کے شروع میں تہران میں ایک مبینہ اسرائیلی حملے میں قتل کردیا گیا تھا۔

61 سالہ یحییٰ سنوار کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ کہ وہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے چند منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے۔ اس کے بعد سے غزہ پر حملے کے دوران اسرائیل انہیں تلاش کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ 

میڈیا رپورٹوں کے مطابق غزہ پر حملہ آور اسرائیلی فوج جدید ترین ٹیکنالوجی، ڈرونز، حساس جاسوسی آلات اور انسانی انٹیلی جنس کی مدد سے یحییٰ سنوار کو تلاش کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی تھی۔ 

 اسرائیل نے سنوار کو ’ختم‘ کرنے کا عہد کیا تھا جبکہ وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے ان کا موازنہ ہٹلر سے کیا تھا۔ 

غزہ پر اسرائیلی حملے کے دوران اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں یحییٰ سنوار کا نام سب سے زیادہ منظرِ عام پر آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ تبادلہ انہی کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔

اسرائیل کو سب سے مطلوب شخص

اسرائیلی ڈیفنس فورس کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہگاری نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد کہا تھا: ’اس حملے کا فیصلہ یحییٰ سنوار نے کیا تھا، اس لیے وہ اور ان کے ساتھی مردہ ہیں،‘ یعنی اسرائیل انہیں مارنے پر تل گیا ہے۔

سنوار کے ساتھیوں میں محمد ضیف شامل تھے جو حماس کے ملٹری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے کمانڈر ہیں۔

اس سال اگست میں اسرائیل نے محمد ضیف کے مارے جانے کا دعویٰ کیا تھا مگر حماس نے اس کی تردید کی ہے۔

یورپین کونسل آن فارن ریلیشنز (ای سی ایف آر) کے سینیئر پالیسی فیلو ہیو لوواٹ نے بی بی سی کو بتایا: ’خیال ہے کہ اگرچہ سات اکتوبر کے حملے کی منصوبہ بندی کے پیچھے ضیف کا دماغ تھا کیونکہ یہ ایک فوجی آپریشن تھا، لیکن سنوار ’ممکنہ طور پر اس گروپ کا حصہ تھے جس نے اس کی منصوبہ بندی کی۔‘

پچھلے سال دسمبر میں انہوں نے غزہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حماس اسرائیل پر ایک شدید حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا: ’ہم انشاء اللہ ایک طوفان کی شکل میں تم پر برسیں گے۔ تم پر لامتناہی راکٹ برسائیں گے، فوجیوں کا لامحدود سیلاب تمہارے پاس لائیں گے، ہم اپنے لاکھوں لوگوں کے ساتھ تمہاری طرف آئیں گے۔‘

اسرائیل میں سنوار کے خلاف نفرت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ اسرائیلی گلوگارہ رینات بار نے آئی ڈی ایف کے فوجیوں کے سامنے پرفارم کرتے ہوئے عربی گیت ’یا بنت السلطان‘ کے بول بدل کر گائے جس میں انہوں نے کہا، ’یا یحییٰ سنوار، آپ کل مر جائیں۔‘

سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سنوار کا ایک بیان منظرعام پر آیا تھا جس میں انہوں نے خبردار کیا تھا: ’قابض رہنماؤں کو جان لینا چاہیے کہ سات اکتوبر صرف ریہرسل تھی۔‘

’ہیلو، میں یحییٰ سنوار ہوں، آپ یہاں محفوظ ہیں‘

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو قید کی جانے والی اور دو ہفتے بعد رہا ہونے والی ایک 85 سالہ اسرائیلی خاتون نے 29 نومبر کو بتایا تھا کہ وہ قید کے دوران غزہ کے رہنما یحییٰ سنوار سے ملی تھیں اور ان سے پوچھا تھا کہ انہوں نے میرے جیسے امن کارکنوں پر حملہ کیوں کیا۔

85 سالہ یوشیود لیفشیٹز کو اسرائیل میں ان کے گاؤں نیر اوز سے سات اکتوبر کو حماس کے عسکریت پسندوں نے پکڑ کر غزہ میں قید کر لیا تھا۔

انہوں نے اسرائیلی اخبار داوار کو بتایا کہ ان کا سامنا سنوار سے اس وقت ہوا جب وہ یرغمالیوں سے ایک زیر زمین سرنگ میں ملے، جہاں حماس نے انہیں یرغمال بنا رکھا تھا۔

اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق رہا ہونے والی ایک اور خاتون قیدی نے بتایا کہ سنوار اس سرنگ میں آ پہنچے، جہاں انہیں اور دوسرے قیدیوں کو رکھا گیا تھا اور ان سے حال احوال پوچھا اور انہیں رواں عبرانی میں بتایا کہ انہیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

ایکس کی صارف ہیا نے ایک پوسٹ میں لکھا: ’رہا ہونے والے اسرائیلی جنگی قیدیوں میں سے ایک نے بتایا کہ یحییٰ سنوار داخل ہوئے اور عبرانی زبان میں ان سے اپنا تعارف کرایا، ’ہیلو، میں یحییٰ سنوار ہوں اور آپ یہاں محفوظ ہیں، آپ کو کچھ نہیں ہو گا۔‘

اسرائیل کے چینل 12 کے مطابق اسرائیلی سکیورٹی اداروں نے بھی اسرائیلی قیدی کے اس بیان کی تصدیق کی تھی۔

اسرائیلی جیلوں میں 22 برس

61 سالہ یحییٰ سنوار کو ابو ابراہیم بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی جیلوں میں 22 برس گزارے تھے۔

وہ 2011  تک اسرائیل کی ایک جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کے بدلے میں دوسرے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انہیں بھی رہائی مل گئی۔

گیلاد شالت کو حماس نے 2006 میں غزہ کی حدود میں گھات لگا کر قید کر لیا تھا، جس کے عوض اسرائیل نے 1027 قیدیوں کو رہا کیا جن میں سینکڑوں ایسے فلسطینی بھی شامل تھے، جنہیں اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کے خلاف حملوں کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔

رہائی کے چھ برس بعد سنوار کو فروری 2017 میں ایک خفیہ انتخابی عمل کے بعد اسماعیل ہنیہ کی جگہ حماس کے عسکری دھڑے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ہنیہ بعد میں حماس کے سربراہ بن گئے تھے۔

’قیدی نمبر 1‘

اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی شین بیت کے ایک اہلکار یارون بلم نے یحییٰ سنوار کے انتخاب کے بعد اسرائیل ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یحییٰ کو ’قیدی نمبر 1 کی حیثیت حاصل تھی۔‘

بلم نے یہ بھی کہا تھا کہ ’سنوار سحرانگیز شخصیت کے مالک ہیں اور بدعنوان نہیں ہیں۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ سنوار عمل پر یقین رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت بہت مشکل ہو گی۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے ایہود یاری کے مطابق سنوار جیل میں خود کو بطور رہنما منوانے میں کامیاب ہو گئے اور ان کی خاطر جیل حکام سے مذاکرات کرنے اور قیدیوں میں نظم و ضبط قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

برطانوی اخبار گارڈین کی ایک رپورٹ کے مطابق جیل میں سنوار سے پوچھ گچھ کرنے والے ایک سابق اسرائیلی تفتیش کار نے کہا کہ جیل میں قید کے دوران ’سنوار نے کسی بھی اسرائیلی سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ دوسرے قیدیوں کو خود سزا دیا کرتے تھے، جو اسرائیلیوں سے بات کرتے تھے۔‘

تفتیش کار کا کہنا تھا کہ ’وہ 1000 فیصد پرعزم اور 1000 فیصد پرتشدد شخص ہیں۔‘

لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ گارڈین نے لکھا کہ سنوار ’ایک تیز دماغ کے ساتھ ایک ذہین سیاسی کارکن بھی ہیں۔‘

اس وقت سنوار سے ملاقات کرنے والے ایک صحافی نے گارڈین کو بتایا کہ ’سنوار کی توجہ اس قدر مرکوز تھی کہ ایسا لگتا تھا جیسے ان کے لیے بقیہ دنیا کوئی وجود ہی نہیں رکھتی۔‘

عبرانی زبان میں مہارت

ایہود یاری کہتے ہیں کہ سنوار عبرانی اخبار پڑھا کرتے تھے اور ان سے ہمیشہ عبرانی میں بات کرتے تھے۔

عبرانی زبان میں ان کی مہارت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ 2011 میں رہا ہونے سے چند ماہ قبل انہوں نے عبرانی زبان میں انٹرویو دیا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکام کی نظروں میں وہ ’اعتدال پسند‘ ہو گئے تھے۔

فنانشل ٹائمز نے اسرائیلی انٹیلی جنس تنظیم شین بیت کی طرف سے سنوار سے پوچھ گچھ کرنے والے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ سنوار جیل میں ’ولادی میر جابوٹنسکی، میناخم بیگن اور اسحٰق رابن جیسی اسرائیلی شخصیات کے بارے میں کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔‘

عبرانی پر عبور اور اسرائیلی جیلوں میں طویل عرصہ گزارنے کی وجہ سے سنوار خود کو اسرائیلی سیاست اور ثقافت کا ماہر سمجھتے تھے۔

چھتوں سے رِستے پانی کی ٹپ ٹپ

سنوار کے خاندان کا تعلق فلسطینی گاؤں المجدل عسقلان سے ہے، جہاں سے اسرائیل نے 1948 میں فلسطینیوں کو بےدخل کر دیا تھا۔ اب یہ علاقہ اسرائیلی شہر عسقلان کا حصہ ہے۔

سنوار سات اکتوبر 1962 کو خان یونس میں پیدا ہوئے تھے۔ ابھی ان کی عمر پانچ برس تھی کہ اسرائیل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔

انہوں نے اپنی کتاب ’کانٹے اور پھول‘ (الشوک و القرنفل) میں لکھا کہ ’1967 کی سردیاں بہت بھاری گزریں، بہار آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی کہ اچانک بارش شروع ہو گئی اور غزہ شہر کے مہاجر کیمپ کے کچے گھر پانی میں ڈوب گئے۔۔۔ سیلابی پانی ہمارے گھر میں داخل ہو گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کتاب میں لکھا ہے کہ اس وقت وہ گھر میں اپنے بڑے تین بھائیوں اور ایک بہن کے ساتھ موجود تھے جو سیلاب سے خوفزدہ ہو گئے۔

’میرے والد اور والدہ نے فرش گیلا ہونے سے پہلے ہمیں بازوؤں میں اٹھا لیا۔ میری ماں نے گھر میں پانی داخل ہونے سے پہلے بستر اٹھا لیا۔ میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے میں اپنی ماں کے ساتھ چمٹ گیا۔

’رات کو میری ماں چھت کے نیچے ایلومینیم کے برتن رکھتی تھی تاکہ چھت سے ٹپکتی بوندیں ان میں گریں۔

’میں جب بھی سونے کی کوشش کرتا، تو پانی کی ٹپ ٹپ مجھے سنائی دیتی۔ جب برتن بھر جاتے تو میری ماں انہی خالی کر دیتی۔‘

نوجوانی ہی میں سنوار نے غزہ میں اخوان المسلمون کی تحریک میں شمولیت اختیار کی، جس کا نام 1987 کے آخر میں بدل کر حماس تحریک میں تبدیل ہو گیا۔

سنوار نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور عربی زبان میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وہ اخوان المسلمون کے سٹوڈنٹ ونگ ’اسلامی بلاک‘ کے سربراہ بھی رہے۔

سنوار 1985 میں وہ اخوان المسلمون کے سکیورٹی ونگ کے بانیوں میں سے ایک تھے، جسے ’مجد‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف غزہ کی پٹی میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔

جیل سے سیکھا گیا سبق

سنوار ویسے تو میڈیا سے دور رہے ہیں لیکن انہوں نے بعض اہم مواقع پر بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ پریس کانفرنسیں بھی منعقد کی ہیں۔

امریکی ادارے این پی آر کے نامہ نگار ڈینیئل ایسٹرن نے 2018 میں ایسی ہی ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

ان کے مطابق سنوار نے کہا کہ وہ اپنی حکمتِ عملی اسرائیل کی جیلوں میں سیکھے گئے سبق کی مدد سے تشکیل دیتے ہیں۔ سنوار نے بتایا تھا کہ ’جیسے جیل میں قیدی اپنے حقوق کے لیے بھوک ہڑتال کرتے ہیں، ویسے ہی فلسطینی غزہ کے حالات میں بہتری کے لیے اپنے جیلروں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘

ایسٹرن کہتے ہیں کہ حماس کے مستقبل کا دارومدار بہت حد تک سنوار پر ہے، اس لیے اسرائیل نے، جس نے حماس کو ختم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، سنوار کو اپنی ہٹ لسٹ میں شامل کر رکھا ہے۔

اسرائیل کی سنوار کو سمجھنے میں ناکامی

اسرائیل کے پاس سنوار سے نمٹنے کا تقریباً 40 سال کا تجربہ تھا، تاہم وہ سنوار کو سمجھ نہیں پائے اور اسی وجہ سے وہ اطمینان کے جھوٹے احساس میں مبتلا ہو گئے۔

سات اکتوبر کے حملے سے قبل اسرائیل سنوار کو ایک ’خطرناک انتہا پسند‘ کے طور پر دیکھتا تھا، البتہ ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے انہیں حقیقی خطرہ نہیں سمجھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سنوار کی توجہ غزہ میں حماس کی حکمرانی کو مضبوط کرنے اور معاشی مراعات حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا