رواں ہفتے پارلیمنٹ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سارجنٹ ایٹ آرمز اور چار سکیورٹی اہلکاروں کو معطل کرنے کے احکامات جاری کیے۔
سپیکر ایاز صادق نے یہ فیصلہ نو اور 10 ستمبر کو پارلیمنٹ کے احاطے سے اراکین قومی اسمبلی کی گرفتاریوں کے بعد کیا۔ رات گئے ہونے والی اس کارروائی کے موقعے پر موجود صحافیوں کے مطابق پی ٹی آئی اراکین کو بظاہر سادہ لباس میں ملبوس افراد نے تحویل میں لیا تھا۔
بعدازاں سپیکر نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے حکومت و اپوزیشن اراکین پر مشتمل 16 رکنی کمیٹی تشکیل دی اور گرفتار کیے گئے اراکین کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرکے انہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا موقع دیا گیا۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق ان اراکین کو پولیس اہلکاروں نے سپیکر لفٹ کے احاطے میں پارلیمان کی سکیورٹی کے حوالے کیا، جس کے بعد انہیں ایوان میں لایا گیا۔
نو ستمبر کو پیش آنے والے اس واقعے کے بعد سارجنٹ ایٹ آرمز سمیت دیگر عملے کو کیوں معطل کیا گیا؟ پولیس کے پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر داخل ہونے سے متعلق قواعد کیا کہتے ہیں؟ کیا سپیکر کی اجازت کے بغیر کسی رکن کو پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے سے گرفتار کیا جا سکتا ہے؟ پارلیمان کی سکیورٹی میں کون کون شامل ہوتا ہے؟ اور سارجنٹ ایٹ آرمز کے فرائض کیا ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے ان تمام سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 67 کی شق نمبر دو کے مطابق صدر نے 1973 میں قومی اسمبلی میں رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس 1973 بنائے، جو تقریباً 20 سال تک نافذ رہے۔
اگست 1992 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر اسمبلی کے قوانین منظور کیے۔ 2007 میں قومی اسمبلی کے رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس یا قواعد و ضوابط کے طریقہ کار 2007 کو منظور کیا گیا۔
پی ٹی آئی اور ان کی اتحادی جماعتیں ان قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے اس اقدام کو ’پارلیمان پر حملہ‘ قرار دے رہی ہیں جبکہ سینیٹ میں بھی اس حوالے سے مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قومی اسمبلی کے ڈائریکٹر جنرل میڈیا ظفر سلطان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ سپیکر کو ان گرفتاریوں سے متعلق پہلے آگاہ کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ پارلیمان کے احاطے سے کسی بھی رکن کو سپیکر قومی اسمبلی کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط کے مطابق ’اسمبلی کی حدود‘ کی تعریف میں چیمبر، لابیاں، گیلریاں، پارلیمنٹ سے منسلک دفاتر اور پارکنگ کی جگہیں، وہ دفاتر جو اسمبلی کے استعمال میں ہیں، وہ جگہیں جو پارلیمنٹ ہاؤس کا حصہ ہیں اور ایسی دوسری جگہیں، جو سپیکر مختص کر سکتے ہیں، شامل ہوں گی۔
اپوزیشن جماعتیں اور حکومتی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کے احاطے سے اراکین کے گرفتار کیے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ’پارلیمانی تاریخ کا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ‘ قرار دیا ہے، کیونکہ پارلیمان کے احاطے سے پہلی مرتبہ کسی رکن کو تحویل میں لیا یا گرفتار کیے جانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اور اس سلسلے میں سارجنٹ ایٹ آرمز کی معطلی کو ’ناکافی‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
لیکن یہ سارجنٹ ایٹ آرمز کون ہیں؟ اور کیا ان کی ذمہ داریوں میں اراکین اسمبلی کی حفاظت کرنا شامل ہے؟
اس حوالے سے پارلیمان کے ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سارجنٹ ایٹ آرمز کا کام قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نظم و ضبط برقرار رکھنا اور قانون نافذ کرنا ہے۔
عہدیدار کے مطابق: ’اس کا کام متعلقہ حدود میں نظم و ضبط برقرار رکھنا بھی ہے، جن میں ایم این اے ہاسٹل، پارلیمنٹ لاجز، پارلیمنٹ ہاؤس، قائمہ کمیٹیوں کے دفاتر اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پارلیمنٹری سٹڈیز شامل ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ سارجنٹ ایٹ آرمز کو اس پوسٹ کے لیے اہل ہونے کی غرض سے 10 سال سے زیادہ عرصے کا تجربہ درکار ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے تقریباً 20 اہلکاروں کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔
عہدے دار کے مطابق: ’سارجنٹ ایٹ آرمز کی ذمہ داریاں پارلیمان کی پولیس کے انسپکٹر جنرل جیسی ہوتی ہیں جبکہ پارلیمان کے اندر آرمی ایکٹ، پولیس ایکٹ اور رینجرز ایکٹ نافذ نہیں ہوتے۔
’سارجنٹ ایٹ آرمز کے زیر نگرانی 172 افراد پر مشتمل سکیورٹی سٹاف کام کر رہا ہوتا ہے، جو پولیس ایلیٹ ٹریننگ سکول سمیت دیگر متعلقہ اداروں سے ٹریننگ حاصل کرتا ہے۔‘
سکیورٹی عہدے دار کے مطابق: ’سارجنٹ ایٹ آرمز کے پاس ہتھیار رکھنے کا اختیار بھی ہوتا ہے اور وہ کسی دوسرے کو بھی ہتھیار رکھنے کا اختیار دے سکتا ہے اور سارجنٹ یا مجاز شخص ہتھیاروں کو استعمال بھی کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سارجنٹ ایٹ آرمز کے ماتحت دو ایڈیشنل سارجنٹ ایٹ آرمز، چار ڈپٹی سارجنٹ ایٹ آرمز، 10 اسسٹنٹ سارجنٹ ایٹ آرمز، 35 سینیئر سکیورٹی اسسٹنٹس، 42 سکیورٹی اسسٹنٹس اور 70 جونیئر سکیورٹی اسسٹنٹس ہوتے ہیں، جب کہ سات سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے کمانڈوز بھی سارجنٹ ایٹ آرمز کے ماتحت پر ہوتے ہیں۔ صورت حال کے پیش نظر سارجنٹ ایٹ آرمز اسلام آباد پولیس کی مدد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
سکیورٹی عہدے دار کے مطابق: ’پارلیمان میں وزیراعظم، صدر اور افواج پاکستان کے چیفس کی سکیورٹی پر مامور عملہ، سارجنٹ ایٹ آرمز کے اجازت کے بعد ہی اسلحہ لا سکتا ہے جبکہ اجازت کے بعد ہی وہ افراد یا ان کی سکیورٹی پر مامور افراد اسلحہ لا سکتے ہیں، جن کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔‘