سال 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات نومبر میں ہونے جا رہے ہیں۔ روایتی طور پر امریکی انتخابات مہنگائی، اسقاط حمل اور امیگریشن جیسے مسائل کے گرد گھومتے ہیں لیکن اس مرتبہ غزہ میں جنگ اور اسرائیل کی حمایت ان انتخابات کا ایک اہم نکتہ بن چکے ہیں۔
امریکہ میں سوئنگ سٹیٹس فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ ان ریاستوں میں اکثریتی ووٹروں کا تعلق کسی ایک مخصوص پارٹی کے ساتھ نہیں ہوتا اور وہ ہر بار موقعے کی مناسبت سے اپنا ووٹنگ پیٹرن بدلتے رہتے ہیں۔
یہ سات ریاستیں بشمول ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، پینسلوینیا اور وسکانسن ایسی ہیں، جن کے پاس وائٹ ہاؤس کی کنجی ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد سوئنگ سٹیٹس میں رہتی ہے۔ خاص طور پر ایریزونا، جارجیا، مشی گن اور وسکانسن میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی ریاست مشی گن، جہاں دو لاکھ سے زائد عرب امریکی آباد ہیں، ان کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 70 فیصد ڈیموکریٹ غزہ میں مستقل فائر بندی کی حمایت کرتے ہیں، جب کہ 91 فیصد مسلمان امیدواروں کے مطابق وہ اس امیدوار کو ووٹ دیں گے جو غزہ میں مستقل فائر بندی کروا سکتا ہو۔
لیکن بات صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے۔ روئٹرز کے ایک سروے سے اشارہ ملتا ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی غلط سمت میں جا رہی ہے۔ اس پالیسی کا ایک اہم عنصر اس کی مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں پالیسی بھی ہے۔
کملا ہیریس نے شاید ہوا کا رخ پہچان کر بائیڈن سے ایک قدم آگے بڑھ کر غزہ میں فائر بندی اور دو ریاستی حل پر زیادہ واضح موقف اپنایا ہے۔ نتیجتاً بائیڈن کی پالیسیوں سے نالاں ووٹروں میں ان کی مقبولیت بڑھ گئی ہے۔
دوسری جانب، اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے فائر بندی پر کوئی بات نہیں کی لیکن وہ مسلسل اسرائیل کی پرزور حمایت کرنے کے بیانات دے رہے ہیں اور یہ بھی کہا ہے کہ امریکی یہودیوں کا ٹرمپ کو ووٹ نہ دینا دشمن کو ووٹ دینا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حماس کے حملوں میں اسرائیلیوں کی موت کی ذمہ دار نائب صدر کملا ہیریس اور امریکی صدر جوبائیڈن ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دونوں امیدواروں کے بیانات اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ پر ان کے مؤقف کو ظاہر کرتے ہیں۔
دوسری جانب ایک بےحد اہم عنصر الیکشن پر لگنے والے پیسے کا بھی ہے، جو ہمیشہ لابنگ گروپس جیسے کوک برادران اور امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی (AIPAC)، امریکن رائفل ایسوس ایشن وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق AIPAC حالیہ انتخابات میں اسرائیل حمایت یافتہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی کانگرس، سینیٹ اور صدارتی امیدواروں پر 10 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
یہ اسرائیل نواز کمیٹی پہلے سے ہی کانگرس کے ان ارکان کے خلاف میدان میں اتر چکی ہے، جنہوں نے غزہ جنگ میں اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔
2024 کے انتخابات اور اسرائیل کے بارے میں امریکی رائے عامہ کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے کے لیے یہ لابنگ گروپس ازحد اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پیسہ اور وسائل ہیں اور کوئی بھی امیدوار ان کی مخالفت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
یہی وجہ ہے کہ رپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹ، دونوں میں سے کوئی بھی کھل کر اسرائیل کے خلاف موقف نہیں اپنا سکتا۔ توقع یہی ہے کہ ہیرس یا ٹرمپ میں سے جو بھی جیتے، امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے بارے میں پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہو گی۔
یہی وجہ ہے کہ بعض ریاستوں میں ان دو جماعتوں سے آگے بڑھ کر سوچا جا رہا ہے۔ ان میں گرین پارٹی اور پیپلز پارٹی شامل ہیں، جن کے رہنما کھل کر امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو مسلسل فوجی امداد کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔