دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے فیک نیوز اور غلط معلومات پھیلانے کا رحجان خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے، جس کی حالیہ مثال ان دنوں لاہور کے نجی کالج میں طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبر ہے، جس کے بعد طالب علموں نے شدید احتجاج کیا اور کئی طلبہ کو گرفتار بھی کیا گیا۔
اس واقعے کے حوالے سے حکومت پنجاب کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیراعلیٰ مریم نواز کو پیش کر دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات پھیلا کر نجی کالج کے طلبہ وطالبات کو پنجاب کے مختلف شہروں میں احتجاج کے لیے اکسایا گیا جبکہ نہ کوئی متاثرہ طالبہ موجود ہے، نہ کوئی گواہ ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت پایا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مبینہ طالبہ کی موت یا ہسپتال میں زیر علاج ہونے کا دعویٰ بھی غلط بیانی پر مبنی تھا۔ اس واقعے کے حوالے سے طالبات کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے کارکن سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلا رہے ہیں، جن میں اس جماعت کے حامی بعض صحافی بھی ملوث ہیں اور ان کے خلاف کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔
غلط معلومات پھیلانے والے نمایاں کرداروں نے بعد میں خود بھی اس واقعے کو جھوٹ قرار دیا لیکن اس سے پہلے لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، ملتان اور گجرات سمیت کئی شہروں میں طلبہ کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاج ہوچکا تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحاق نے جمعے کو لاہور ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ ’نجی کالج کی طالبہ سے متعلق 12 اکتوبر کو انسٹا گرام کی ایک پوسٹ میں جھوٹی معلومات دی گئیں، جو دیکھتے ہی دیکھتے بغیر تصدیق کے ہزاروں لوگوں نے شیئر کر دیں۔ یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ طالبہ کون ہے، کہاں رہتی ہے اور اس نام کی کوئی طالبہ موجود بھی ہے یا نہیں۔ سب نے اس معاملے پر بڑھا چڑھا کر معلومات پیش کرنا شروع کر دیں۔ پھر یوٹیوب، فیس بک اور ٹوئٹر پر لوگوں نے اس پر وی لاگ کر دیے۔ کئی صارفین نے بچی کے فوت ہونے کی معلومات پھیلا دیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر سینکڑوں طلبہ احتجاج کے لیے نکل آئے۔‘
جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالہ نیلم نے کہا کہ ہائی کورٹ کا فل بینچ منگل (22 اکتوبر) کو ان حالیہ واقعات اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز پھیلنے کے حوالے سماعت کرے گا، جہاں ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو ریکارڈ سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا ہے۔
غلط معلومات یا فیک نیوز کی بنیاد پر کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں بھی پر تشدد احتجاج ہوا تھا اور اس سلسلے میں لاہور کے رہائشی فرحان آصف کو پولیس نے فیک نیوز پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا، جنہیں بعدازاں عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں کئی یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو بھی غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں ایف آئی اے کی جانب سے حراست میں لیا جا چکا ہے، لیکن ان میں سے بیشتر گرفتاریاں ہر دور میں حکومتِ وقت کے خلاف پروپیگنڈے کی بنیاد پر ہی ہوئی ہیں۔
کسی پر جھوٹا الزام لگانے یا فیک نیوز پھیلانے کے خلاف قانون تو موجود ہے لیکن ان پر عمل درآمد مکمل طور پر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے کام کرنے والے اسے ایک ’خطرناک رجحان‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
لاہور میں قائم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سربراہ نگہت داد کہتی ہیں کہ ’غلط معلومات کا پھیلاؤ ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے، لیکن جس طرح لاہور واقعے کو پیش کر کے انتشار پھیلایا گیا یہ بہت خطرناک روایت ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ ’پنجاب حکومت کی جانب سے بھی اس واقعے کو موثر انداز میں ہینڈل نہیں کیا گیا اور اعلیٰ حکام کے متضاد بیانات نے شکوک و شبہات پیدا کیے۔‘
بقول نگہت داد: ’سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کوئی بھی شہری اپنا اکاؤنٹ بنا کر اسے استعمال کرسکتا ہے، لیکن یہ احساس ذمہ داری بہت کم شہریوں میں پائی جاتی ہے کوئی معلومات شیئر یا پوسٹ کرنے سے قبل تصدیق کر لی جائے۔ اس میں کمائی کا عنصر شامل ہونے سے یہ مسائل مزید بڑھتے جا رہے ہیں۔ بیشتر لوگ اپنی ویڈیو یا تحریر اس لیے متنازع بناتے ہیں یا جھوٹی پوسٹ کرتے ہیں، جس کے وائرل ہونے کا امکان زیادہ ہو۔ یہ خطرناک رحجان ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہمارے ہاں فیکٹ چیک کا بھی کوئی وسیع نیٹ ورک موجود نہیں، جو کسی بھی غلط معلومات کی فوری تصدیق کرکے اسے فیک قرار دے سکے۔ دوسری جانب جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس کی مصدقہ معلومات کسی انکوائری کے بعد ہی آتی ہیں اور اس میں وقت لگتا ہے، لیکن جب تک یہ صورت حال واضح ہوتی ہے، معلومات لاکھوں لوگوں تک پہنچ چکی ہوتی ہیں۔‘
نگہت سمجھتی ہیں کہ تعلیمی اداروں میں یہ آگاہی دی جانی چاہیے۔ ’ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی اس بارے میں کوئی حکمت عملی نہیں کہ طلبہ کو سوشل میڈیا پر غلط معلومات سے بچاؤ کی آگہی دی جائے۔ میرے خیال میں اب یہ نصاب میں شامل ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا کے اثر سے کیسے بچنا ہے اور اسے استعمال کیسے کرنا ہے۔‘
جھوٹی معلومات کا پھیلاؤ روکنا کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر سجاد مصطفیٰ سے رابطہ کیا، جن کا کہنا تھا کہ یہ کام کسی ایک ادارے کا نہیں بلکہ اس سلسلے میں سب کو مل کر کام کرنا چاہیے۔
سجاد مصطفیٰ کا کہنا تھا: ’فیک نیوز یا غلط معلومات کی اصطلاح عام ہونے سے پہلے سیاسی مفادات کے تحت من گھڑت معلومات پھیلائی جاتی تھیں، لیکن اب یہ معاملہ تعلیمی اداروں تک پھیل کر سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ اسے روکنا کسی ایک ادارے کا کام نہیں بلکہ پی ٹی اے، نیکٹا، پولیس اور ایف آئی اے سمیت تمام اداروں کو مشترکہ لائحہ عمل بنا کر عمل کرنا لازمی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شکایت کنندہ کی درخواست کی بنیاد پر ہی کارروائی کا قانون ہے لیکن جب تک کوئی متاثرہ فریق شکایت کرتا ہے، اس وقت تک معلومات پھیل چکی ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’سوشل میڈیا ہو یا صحافتی ادارے، بے شک یہ سب لوگوں تک معلومات پہنچانے کا ہی ذریعہ ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معلومات یا خبر درست ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے کارروائیاں بھی ہوتی رہتی ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ادارے کسی کے خلاف اس وقت تک کارروائی نہیں کرسکتے جب تک کوئی متاثرہ شخص درخواست نہ دے۔ جب تک درخواست دی جاتی ہے، تب تک جھوٹی معلومات یا پروپیگنڈہ تیزی سے پھیل چکا ہوتا ہے اور ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ وائرل معلومات کو روکا جا سکے، البتہ جو پہلے پوسٹ کرتا ہے، اس تک ہی پہنچا جاتا ہے۔‘
سابق ایف آئی اے ڈائریکٹر نے مزید کہا: ’اس حوالے سے صرف صارفین ہی نہیں بلکہ ہمارے اعلیٰ حکام اور ادارے بھی اپنا فعال کردار ادا نہیں کر رہے۔ عوام کا کسی حکومت یا ادارے پر مکمل اعتماد نہیں ہوتا، لہذا ادارے یا حکام کی تحقیقات پر بھی بیشتر لوگ یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
’کوئی ایسا ادارہ یا حکمران نہیں جس کی بات پر لوگ مکمل اعتماد کرتے ہوں، اسی لیے جب بھی کوئی جھوٹی معلومات کی بنیاد پر پروپیگنڈہ کرتا ہے تو اسے شیئر کرنے والے زیادہ اور سچ بتانے والوں کی تعداد کم دکھائی دیتی ہے، اس لیے سب سے پہلے تو اداروں اور حکام کا عوام میں اعتماد پیدا کرنا لازمی ہے۔‘
اس حوالے سے نگہت داد کہتی ہیں کہ ’فیک نیوز یا غلط معلومات کا پھیلاؤ نہ روکنے میں ہمارے ادارے اور حکومتیں بھی ذمہ دار ہیں۔ جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو متعلقہ حکام معلومات بتانے کی بجائے چھپانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ میڈیا کے لوگوں کو بھی درست معلومات فراہم کرنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ جب کسی واقعے کی سرکاری حکام وضاحت کرتے ہیں تو پھر کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔‘
نگہت کے مطابق: ’ہر حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ معلومات تک رسائی یقینی بنائی جائے گی، لیکن آج سوشل میڈیا کے اس دور میں معلومات تک رسائی ممکن ہی نہیں۔ ہتک عزت سمیت دیگر قوانین اپنی جگہ لیکن لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں انتظامیہ پر بھی طلبہ یقین نہیں کرتے کیونکہ انہیں نہ کبھی اعتماد میں لیا گیا، نہ ان کی کاؤنسلنگ کی گئی۔ اب نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نئے انداز اپنانا ہوں گے، ورنہ اس بڑے مسئلے پر قابو پانا ممکن نہیں ہوگا۔‘