اناؤں کی جنگ میں پیچھے کون ہٹے گا؟

اجتماعی دانش انفرادی حاکمیت میں بدل جائے تو اقتدار کے محل مقبرے بن جاتے ہیں۔ ٹرائے جیسی عظیم سلطنت پیادہ فوج کی اکثریت سے نہیں بلکہ ٹراجن گھوڑے کی حکمت عملی آزماتے ہوئے فتح کی گئی۔

بیرسٹر گوہر اور دیگر پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارلیمان 19 اکتوبر 2024 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں موجود ہیں(قومی اسمبلی/ فیس بک)

جون ایلیا کا یہ شعر آج بار بار کانوں میں گونج رہا ہے؛

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

عیسیٰ علیہ سلام کے زمانے کے رومن شاعر اوویڈ  (Ovid) کے خوبصورت کردار نارسیسس (Narcissus) کی کہانی محض آشنائی کا ایک دریچہ ہے۔ ’خود پرست شہزادے‘ کی یہ کہانی ادب کا حصہ ہے جو پانی میں اپنا ہی عکس دیکھ کر خود سے عشق میں مبتلا ہوا اور پھر اسی تالاب کے کنارے گزر گیا۔ نرگس کا پھول اور نرگسیت کا استعارہ آج بھی اسی خود پسندی کی علامت ہے۔

اجتماعی دانش انفرادی حاکمیت میں بدل جائے تو اقتدار کے محل مقبرے بن جاتے ہیں۔ ٹرائے جیسی عظیم سلطنت پیادہ فوج کی اکثریت اور طاقت سے نہیں بلکہ ٹراجن گھوڑے (Trojan Horse) کی حکمت عملی آزماتے ہوئے محض تیس سے چالیس جنگجوؤں کی بہترین حکمت سے فتح کی گئی۔

دنیا فتح کرنے والا سکندر اعظم یونانی شاعر ہومر کی نظم الیاڈ کو اپنے تکیے کے نیچے رکھتا تھا اور اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر سیکھتا تھا کہ فتح خود کو شکست دینے کا نام ہے لیکن جب راہبری اناؤں کی جنگ بن جائے تو پھر بات ’ہم‘ نہیں ’میں‘ تک ہی رہتی ہے۔

یہ محض تماثیل نہیں بلکہ ماضی کی کہانیاں اور کردار حال کی اصلاح اور ہیرو صفت شخصیات کی شناخت کا موقع  بھی فراہم کرتی ہیں۔ کوئی بھی جنگ جیتنے کے لیے پیادہ سپاہیوں کے ساتھ ساتھ حکمت عملی ترتیب دینے والے دماغ نہ ہوں تو آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔

موجودہ سیاسی ماحول اور 26 ویں ترمیم کے تناظر میں عدد سے زیادہ سیاسی حکمت عملی اور شخصیت پرستی سے نکل کر اجتماعی سوچ کامیابی کی ضمانت بنی ہے۔

پارلیمانی نظام پر جس قدر نقب زنی کی گئی ہے دو رائے نہیں کہ پارلیمان کی بالادستی کے لیے پارلیمان کو ہی آگے آنا تھا۔

عدلیہ اور مقتدرہ کا گٹھ جوڑ ٹوٹ چکا مگر دونوں کی تجاوزات تاحال جاری ہیں۔ بہرحال عدالتی اصلاحات کی جانب قدم بڑھایا گیا ہے گو اس کے وقت پر اعتراض موجود ہے۔

حکمران اتحاد کی سیاسی حکمت عملی، مولانا، بلاول کا ’ایک صفحہ‘ نظریاتی اختلاف کے باوجود اتفاق کی نایاب مثال ہے۔ عدالتی اصلاحات سے متعلق ترامیم میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود مطلوبہ نمبر حاصل کرنا موجودہ حکمران اتحاد کی بہرحال بڑی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔

مولانا فضل الرحمن کے پارلیمان میں کُل 13 اور تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد سو سے زائد ہے تاہم سیاسی حکمت عملی میں مولانا فضل الرحمن نے حز ب اختلاف کی سیاست میں مرکزی کردار حاصل کیا جبکہ تحریک انصاف اپنی عددی برتری سے فائدہ اٹھانے اور اپنے پیادہ سپاہیوں کے ذریعے تاحال یہ پارلیمانی جنگ جیتنے میں ناکام ہوئی ہے۔

تحریک انصاف کا المیہ ہے کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے محاذ پر پروپیگنڈا مضبوط ہونے کے باوجود سیاسی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی ہے۔ اسمبلیوں سے استعفے دینے کا معاملہ ہو یا پارلیمانی سیاست میں متحرک کردار ادا کرنا، بدقسمتی سے احتجاج اور پُرتشدد احتجاج کو ہتھیار تو بنایا گیا لیکن موثر سیاسی لائحہ عمل کو قطعی نہیں آزمایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحریک انصاف میں بہت سے زرخیز سیاسی دماغ موجود ہیں جو اس جماعت کو ایک سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیں اور بلاشُبہ بیرسٹر گوہر ان ہی میں سے ایک ہیں۔ کاش ان جیسے زرخیز سیاسی رہنماؤں کی بات سنی جاتی، محاذ آرائی اور چڑھائی سے اجتناب کیا جاتا لیکن اس کے لیے اپنی ذات کو پیچھے دھکیلنا پڑتا جو نہیں ہو سکا۔

کیا تحریک انصاف اپنی سیاسی غلطیوں کا احاطہ کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے، کیا تحریک انصاف جو بلاشبہ ایک بڑی سیاسی جماعت ہے مقبول ہونے کے ساتھ معقول سیاست کا استعمال کرے گی؟ کیا ایک سیاسی جماعت یہاں وہاں بکھرے، بھگوڑوں کی ان ہاؤس مہم جوئی سے جان چھڑا کر حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کرے گی؟

تحریک انصاف میں سیاسی گروپ کی داغ بیل کی خبریں گرم ہیں اور ایسا ہونے کی صورت نقصان اس جماعت کی پارلیمانی سیاست کا ہی ہو گا۔

ترمیم تو ہو گئی تاہم اس ترمیم کے بعد پارلیمنٹ کی بالادستی اس وقت تک ممکن نہ ہو گی جب تک عدالتی مداخلت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم کرنے اور ادارے کو اپنی حدود تک محدود کرنے کے اقدامات نہ کیے گئے۔

ہر کسی کو اپنی اناؤں سے پیچھے ہٹنا پڑے گا تب ہی آئین کی جیت ہو گی۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر