برطانوی اخبار ڈیلی میل بشار الاسد کی اہلیہ اسما الاسد کے پس منظر پر ایک رپورٹ میں لکھتا ہے کہ شام کی سابق ’خاتون اول‘ جنہیں کبھی ’صحرا میں پھول‘ کہا جاتا تھا، اب لیڈی میک بیتھ کی طرح نفرت انگیز کردار بن چکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 49 سالہ اسما الاسد، بینکنگ میں کامیاب کیریئر اور ایک سیکولر برطانوی پرورش کے ساتھ، برسوں تک مشرق وسطیٰ میں خواتین کی آزادی کے لیے ایک اہم کردار تھیں۔
اسما 1975 میں لندن میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد، فواز اخراس، کروم ویل پرائیویٹ ہسپتال میں ایک کامیاب کارڈیالوجسٹ تھے، اور ان کی والدہ، سحر، ایک سینیئر شامی سفارت کار تھیں۔ اسما کو میریلیبون کے کوئنز کالج میں پڑھنے کے لیے بھیجا گیا، جہاں اس کی فی ٹرم فیس تقریباً نو ہزار برطانوی پاونڈز یا 31 لاکھ پاکستانی روپے تھی۔
انہوں نے 1996 میں کنگز کالج لندن سے کمپیوٹر سائنس اور فرانسیسی ادب میں ڈگری حاصل کی اور ڈوئچے بینک اور جے پی مورگن سمیت بڑی کمپنیوں میں سرمایہ کاری بینکنگ میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
چار سال بعد انہوں نے شام میں بشار الاسد سے، جو اب 59 سال کے ہیں، شادی کی۔ اسی سال جب اسد نے اپنے والد حافظ الاسد کی موت کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالا تھا۔
ان کے تین بچے ہیں جن کی عمریں 19 سے 23 سال کے درمیان ہیں۔ وہ بھی خیال ہے کہ اپنے والدین کے ہمراہ محفوظ مقام کی تلاش میں ہیں۔
امریکہ نے چند برس قبل بشار الاسد کی حکومت کے خلاف نئی پابندیاں عائد کی تھیں جن میں ان کی اہلیہ اسما الاسد اور شام کے مرکزی بینک بھی شامل تھے۔
شام میں خانہ جنگی، جو 2011 کے مظاہروں کے بعد شروع ہوئی تھی، لاکھوں شامی شہریوں کی نقل مکانی اور بے گھر ہونے کا باعث بنی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بشار الاسد کی برطانوی نژاد اہلیہ اسما الاسد پر سیاسی حل تک پہنچنے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پابندی عائد کی تھی۔ اسد خاندان کے کچھ دیگر افراد کو بھی سزائیں دی گئی تھیں۔
ڈیلی میل کے مطابق بین الاقوامی سطح پر اسما الاسد اپنے سادہ لباس اور فوٹو جینک شکل سے ایک باوقار چہرہ کے طور پر دیکھی گئیں۔ ان کا بےنقاب چہرہ ایک مسلمان ملک میں خواتین کی قدرے آزادی کی عکاسی کرتا تھا۔
اس شبہہ کو اس وقت تقویت ملی جب فروری 2010 میں، ووگ میگزین نے انہیں ’صحرا میں ایک پھول‘ اور ’سب سے پرکشش خاتون اول‘ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیلی میل لکھتا ہے لیکن اگلے سال شام میں ان کے وحشیانہ کریک ڈاؤن پر مخالفین اور اسد حکومت کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس کی وجہ سے ایک ’اوپن اور سیکولر‘ ملک کے طور پر ملک کی ساکھ تباہ ہو گئی۔
ڈیلی میل کے مطابق کہا جاتا ہے کہ اس تنازعہ کے دوران جوڑے کے تعلقات میں سرد مہری آگئی لیکن 2016 میں اسد کی والدہ کی موت اور 2018 میں اسد کی اہلیہ میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے بعد اسما حکومت کی معیشت کا مرکز بن گئیں۔
ڈیلی میل لکھتا ہے کہ یہ نیا کردار ملک کے متوسط طبقے اور تاجروں سے کو ہلا کر رکھ دینے کی کارروائی کے سوا کچھ نہیں تھا۔
اسما نے کمیٹیوں اور پالیسیوں کا ایک پیچیدہ اور خفیہ نیٹ ورک تیار کیا جو انٹرنیٹ تک رسائی سے لے کر سبسڈی والے راشن تک ہر چیز کو کنٹرول کرتی تھیں۔
ڈیلی میل نے رپورٹ کیا کہ اسما کی سلطنت غیر ملکی امداد کی تقسیم تک پھیلی ہوئی تھی، جو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرتی تھیں کہ کس نے کیا اور کب وصول کیا۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ جیسے جیسے اسد کی آمریت میں ان کا کردار بڑھتا گیا، وہ اب ایک آزاد خاتون کے طور پر ایک مسلم ملک میں اقتدار کے مرکز میں کام کرنے والی اپنی ابتدائی شبہہ کو برقرار نہیں رکھ سکیں۔
وہ شامی حکومت کی طرف سے عوام پر جبر کی اہم شخصیات میں سے ایک بن گئیں۔
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے مارچ 2012 میں اسما اسد کے بارے میں دہشت گردی کی کارروائیوں پر اکسانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزام میں تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
لندن میں مقیم Guernica 37 لاء فرم نے پولیس کی انسداد دہشت گردی کمان کے وار کرائمز یونٹ میں شکایت درج کرائی، جس کے بعد اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ آیا مزید تفتیش کے لیے کافی ثبوت موجود ہیں یا نہیں۔
مسز اسد دوہری شہریت یعنی برطانوی اور شام کی رکھتی ہیں۔
اسما کی ذاتی ناکامیوں میں سے ایک وہ تھی جب شام میں جنگ پر عوامی ردعمل کے بعد ووگ نے 2012 میں ان کا انٹرویو اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا تھا۔
لیکن شام کی مالیاتی پالیسی میں ان کے کردار کی وجہ سے کچھ مبصرین نے اسما کو ’لیڈی میک بیتھ‘ کہا۔ لیڈی میک بیتھ شیکسپیئر کے سب سے مشہور اور خوفناک خواتین کرداروں میں سے ایک ہیں۔
ڈیلی میل لکھتا ہے کہ چار دنوں میں اسد، جو اب شام سے فرار ہو چکے ہیں، اپنی شادی کی 24ویں سالگرہ منائیں گے۔ لیکن یقینی طور پر ایسے حالات میں جو شام کے دارالحکومت دمشق میں اپنی سابق پرتعیش صورت حال سے بہت دور ہیں۔
لیکن وہ اس ازدواجی لمحے کو کہاں منائیں گے، جب ان کا اقتدار تباہ ہے، اور مستقبل کی کوئی واضح تصویر نہیں ہے، اس بارے میں رائے قائم کرنا مشکل ہے۔
اسد حکومت کے دیرینہ اتحادی روس نے اعلان کیا ہے کہ یہ خاندان دمشق سے فرار ہو گیا ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ باغی دھڑوں کے ساتھ اس خلا کو پر کرنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے، لیکن اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا اسد روسی علاقے میں داخل ہوئے ہیں یا نہیں۔
جہاں کہیں بھی مسز اسد اور ان کے شوہر آنے والے برسوں میں اپنے آپ کو پائیں گے چاہے وہ ماسکو ہو یا تہران، ان کی دمشق واپسی ابھی ناممکن ہے۔