انگلستان کے علاقے یارکشائر کے نوجوان جارج ہیورڈ 1859 میں فوج میں کمیشن لے کر ملتان پہنچے تو ہندوستان میں غدر کے ہنگامے تھم چکے تھے اور باغی توپوں کے آگے باندھ کر اڑائے جا چکے تھے۔
اگلے چند برس ہیورڈ ایک بگولے کی طرح چترال، کیلاش، نورستان، گلگت، ہنزہ، سنکیانگ اور ملحقہ علاقوں میں گھومتے رہے۔ ان کے دل میں ایک ہی لگن تھی، اور اسی لگن نے انہیں خنجر کی دھار سے روشناس کروا دیا، مگر اس تذکرے سے پہلے ہم آپ کو اس ماحول میں لیے چلتے ہیں جہاں ہیورڈ سرگرم تھے۔
غدر میں کامیابی کے بعد سرکار انگلشیہ کو کئی خدشات اب بھی لاحق تھے جن میں سے ایک برصغیر کے شمال مغرب میں روس کا بڑھتا ہوا خطرہ تھا، جو لمبے عرصے سے انہیں آنکھ میں تنکے کی طرح چبھ رہا تھا۔
خطرے کا یہ احساس یک طرفہ نہیں تھا۔ ایسا ہی گمان روس کو برطانوی ہند کے متعلق بھی تھا۔
بیسویں صدی کی دو عالمی قوتوں، امریکہ اور سویت یونین کو ایک دوسرے کے سائے سے خطرہ محسوس ہوا تو اسے سرد جنگ کا نام دیا گیا۔ انیسویں صدی میں برطانوی ہند اور روس کے درمیان اس فاصلاتی چپقلش کو ’دا گریٹ گیم‘ کہا گیا۔
دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ انگریزوں اور روسیوں، دونوں کو اپنے بیچ پھیلے ہوئے ہندوکش، قراقرم اور پامیرکے لامتناہی پہاڑی سلسلوں کے حصار میں موجود پراسرار علاقوں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔
وہ صرف یہ جانتے تھے کہ کابل کے ساتھ کافروں کا ایک خطہ ہے، جہاں لوگ دیوتاؤں کو پوجتے ہیں، شراب پیتے ہیں اور خود کو سکندرِ اعظم کی نسل سمجھتے ہیں۔
ان کافروں سے دیوتا اور شراب افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن نے انیسویں صدی کے آخر میں چھڑائی۔ سکندر کی نسل سے ہونے کا تمغہ موجودہ جینیاتی محققین نے ان سے واپس لیا۔
یہ سب چھن جانے کے بعد سابقہ کافرستان کا یہ علاقہ اب افغانستان کا سب سے غیر معروف علاقہ ’نورستان‘ کہلاتا ہے۔
اس سے جڑا ہوا علاقہ چترال تھا جس کا تعارف اس کی پسماندگی، دشوار گزار راستے اور وسطی ایشیا کی منڈیوں کو یہاں سے بیچے جانے والے غلام تھے۔ بعد میں یہ علاقہ انگریز سرکار کے قبضے میں چلا گیا تو انہوں نے غلاموں کی فروخت بند کر دی۔
انگریزوں کے بعد جب دیسی سرکار آئی مگر پسماندگی اور سڑکوں کا مسئلہ سات دہائیوں بعد بھی باقی ہے۔
پاس ہی گلگت تھا جس پر مہاراجہ کشمیر کی نظریں جمی تھیں مگر پے درپے حملوں کے بعد بھی وہاں ان کا قدم نہیں جم رہا تھا۔
ایک علاقہ ہنزہ نام کا بھی تھا جہاں سے بعض اوقات جنگ و جدل اور لوٹ مار کی خبریں آتی تھیں۔
یہاں سے آگے پامیر کے اس پار وسطی ایشیا کی وسعتیں تھیں جو روسی اور چینی یلغار سے سال بہ سال سمٹتی جا رہی تھیں۔
وہیں یارقند، کاشغر اور بخارہ کے دورافتادہ شہر تھے۔ اس سے زیادہ باہر کی دنیا کو ان علاقوں کا علم نہیں تھا۔ مگر یہ طے تھا کہ اس علاقے پر جس طاقت کا بھی قبضہ ہو گا، اس کا مخالف اسے اپنی دہلیز پر بیٹھا ہوا پائے گا۔
ایسے میں ان علاقوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے اور یہاں کے مقامی حکمرانوں کو اپنے زیر اثر لانے کی دوڑ شروع ہوئی۔
انگریز افسر یا ان کے دیسی منشی جنہیں پنڈت کہا جاتا تھا، تاجروں اور زائروں کے بھیس میں یہاں آنا شروع ہوئے اور واپسی پر حکام کو رپورٹیں لکھ کر پیش کیں۔ ان کے بعد کئی مہم جوؤں اور محققین نے بھی یہاں کا رخ کیا۔
اس گہما گہمی میں چھاؤنی کی پرسکون فضا اور فوجی میس کی آسائش میں ایسا کچھ نہیں تھا جو نوجوان جارج ہیورڈ کی آزاد منش طبیعت کو بھا سکے۔ فوج میں جانا ان کا شوق ہو سکتا تھا مگر مہم جوئی ان کا جنون تھا، اس لیے انہوں نے کمیشن واپس کر کے لندن میں رائل جیوگرافک سوسائٹی کے در پر دستک دی جو مہم جوؤں کو زادِ راہ دے کر دور دراز اور نامعلوم علاقوں کی سیاحت اور دریافت کے لیے بھیجتی تھی۔
وہاں سے کچھ رقم ملنے کے بعد ہیورڈ نے مہم کا آغاز کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 1868 میں کشمیر اور لداخ سے ہوتے ہوئے وسطی ایشیا کے شہر یارقند اور وہاں سے کاشغر پہنچ گئے۔
یہ اس زمانے میں معجزہ نہ سہی مگر تعجب خیز کارنامہ ضرور تھا۔ کاشغر میں وہ حکمران یعقوب بیگ کے ہاتھوں کچھ عرصہ قید رہے۔
اس قید میں انہوں نے اپنے ایک دوست رابرٹ شا کو جو تجارتی غرض سے کاشغر میں تھے، خط لکھا۔
ہیورڈ نے خط میں پہلے اپنے دوست کے مستقبل کا نقشہ کھینچا اور لکھا کہ ’تم اس علاقے میں تجارتی روابط قائم کر کے امیر ہو جاؤ گے اور شاہانہ زندگی گزارو گے۔ یہاں برطانیہ کی طرف سے ایلچی مقرر کیے جاؤ گے۔‘
پھر اپنے کل کے بارے میں لکھا، ’میں وسطی ایشیا کے ویرانوں میں گھومتا پھرتا رہوں گا، ایک جنون کے ساتھ کہ اپنی گردن پر خنجر کے دھار کی ٹھنڈک آزما سکوں، پامیر کے علاقے میں بے شمار مارکو پولو بھیڑوں کا شکار کروں گا، کاراکل جھیل کو تیر کر پار کروں گا، اور آخر کار چترال کے بادشاہ کے ہاتھوں غلام بنا کر بیچ دیا جاؤں گا۔‘
رہا ہونے کے بعد وہ اپنے اسی جنون کے زیر اثر اس علاقے کی خاک چھانتے رہے۔
قراقرم اور پامیر کے پہاڑوں اور ان میں بہنے والے دریاؤں کے متعلق بیش بہا معلومات اکٹھی کیں اور واپس آ گئے۔
اگلے سال ہیورڈ نے دوبارہ ان پہاڑوں کا رخ کیا اور بے سروسامانی کے عالم میں سردیوں میں گلگت پہنچے۔
اس سرپھرے کا ارادہ وسطی ایشیا پہنچنے کا تھا تاکہ ہندوستان سے کشمیر اور لداخ کے بجائے سیدھا چترال سے ہوکر کاشغر پہنچنے کا مختصر ترین راستہ معلوم کیا جا سکے۔
مگر ہیورڈ کے ارادوں کے سامنے ہندوکش کے پہاڑ اور وادی یاسین میں درکوت کا درہ حائل تھا جنہیں سردیوں میں عبور کرنا ممکن نہیں تھا۔
’کوئی ڈیڑھ صدی بعد گلگت بازار میں میرے سامنے بھی ایک دیوار حائل ہے اور میں شدید خواہش کے باوجود اسے پھلانگ کر اس احاطے میں نہیں اتر سکتا جہاں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ میں نامراد ہو کر ہنزہ چلا جاتا ہوں۔ ہیورڈ مایوس ہو کر واپس کشمیر چلا گیا تھا۔‘
گلگت کے اس سفر کے دوران انہوں نے اس خطے میں کچھ طاقتور کرداروں کی دشمنی مول لینے کے لیے انہیں کافی سارا جواز فراہم کر دیا۔
یہ وہ دور تھا جب بالآخر گلگت پر مہاراجہ کا قبضہ ہو چکا تھا۔ وادیِ یاسین میں ہیورڈ نے کشمیری فوج کے 1863 کے حملے اور تباہیوں کے نشان دیکھے۔
اس حملے میں ڈوگرہ فوج نے یاسین کے دو ہزار باسیوں کو تہہ تیغ کیا تھا اور تین ہزار کو غلام بنا کر اپنے ساتھ گلگت لے گئی تھی۔
ان قیدیوں میں سے چن چن کر ایک ہزار خواتین کو جموں بھیج دیا گیا۔
شیر خوار بچے ہوا میں اچھال اچھال کر تلوار سے ٹکڑے کیے گئے۔ حملے کے سات سال بعد بھی جارج ہیورڈ کو یاسین کے قلعہ مڈوری میں عورتوں اور بچوں کی 147 کھوپڑیاں پڑی ملیں۔
گاؤں کے گاؤں ویران پڑے تھے اور باسی قتل کیے گئے تھے۔ جارج ہیورڈ نے کلکتہ کے ایک انگریزی جریدے ’پاینئیرز‘ کو مضمون لکھ کر بھیج دیا اور بتایا کہ جس مہاراجہ کے ساتھ انگریز سرکار اتحاد کر رہی ہے اس کا بظاہر سفید دامن خون کے دھبوں سے داغ داغ ہے۔ کلکتہ سے یہ مضمون مہاراجہ کے دربار میں بھی پہنچا جس پر خود بھی ہیورڈ کو تشویش ہوئی۔
اس کے باوجود ہیورڈ اگلے سال گرمیوں میں دوبارہ گلگت اور وہاں سے وادی یاسین پہنچتا ہے اور مقامی گورنر میر ولی سے ملاقات کرتا ہے۔
جولائی 1870 میں وہ دوبارہ درہ درکوت کے روبرو کھڑا ہے جس نے پچھلے سال اسے راہ نہیں دی تھی۔
’میں بھی ہنزہ سے واپسی پر بارِ دیگر گلگت بازار کے نکڑ میں بنے احاطے کے سامنے کھڑا ہوں۔‘
32 سالہ جارج ہیورڈ پرامید ہیں اور پامیر کے آغوش میں اترنے سے پہلے ایک آخری رات وادی یاسین میں درہ درکوت کے چرنوں میں کیمپ لگا کر گزارتے ہیں۔
’میں بھی خوش ہوں کہ اس احاطے کے آہنی دروازے کی چابی سامنے ایک دکاندار سے مل گئی ہے۔ میں اس خاموش احاطے میں داخل ہوتا ہوں۔‘
لیکن ہیورڈ کو پامیر میں داخلے کا اذن اس بار بھی نہیں ملا۔ پچھلے سال ہیورڈ کے پامیر جانے میں موسم دیوار بن کر کھڑا ہو گیا تھا، اس بار سامنے ملک الموت کھڑا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشکل موسم گزارا جا سکتا ہے مگر موت کیسے ٹالی جائے۔ علیٰ الصبح کچھ لوگ جارج ہیورڈ کے خیمے میں داخل ہوتے ہیں اور ہیورڈ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر باہر نکالتے ہیں۔
اپنے جس دیرینہ جنون کا اظہار انہوں نے اپنے دوست کو خط لکھ کر کیا تھا اس کی تشفی دشمن کے ہاتھوں ہونے کے قریب ہے۔
وہ خنجر کی تیز دھار کی ٹھنڈک اپنی گردن پر محسوس کرتے ہیں۔ سر تن سے اتر کر زمین پر لڑھکنے سے پہلے وہ اپنی ایک اور خواہش کا بھی اظہار کرتے ہیں۔
ایک جہان گرد کی زندگی گزارنے والے نوجوان موت بھی جہان گرد والی چاہتے ہیں۔ اس جہانِ رنگ و بو سے آخری نظارہ جو ہیورڈ اپنے ساتھ سووینئیر کے طور پر لے جانا چاہتے تھے ، وہ درہِ درکوت کے پیچھے سے نکلتے سورج کا ہے۔
قاتلوں نے اس خواہش کی لاج رکھی اور اس منظر کو ہیورڈ کی مہم جو آنکھوں میں جذب ہونے تک انتطار کیا۔
ہیورڈ کے قتل میں مہاراجہ کشمیر، مہترِ چترال امان الملک اور میر ولی، سب مختلف وجوہات کی بنیاد پر مشکوک ٹھہرے۔
مہاراجہ پر شک کے لیے ہیورڈ کا ان کے خلاف لکھا مضمون کافی ہے۔
میرولی کا نام اس لیے سامنے آیا کہ قاتل اس کے قریبی لوگ تھے اور ہیورڈ کے سازوسامان پر بھی انہوں نے ہاتھ صاف کیا۔ چترال کے امان الملک پر شک تھا کہ وہ یاسین کی وادی میر ولی سے لے کر اپنے بھتیجے پہلوان بہادر کے حوالے کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے ایک فرنگی کا قتل کر کے اس کا الزام میر ولی پر ڈالنے سے زیادہ بہتر بہانہ نہیں ہو سکتا تھا۔
اس واقعے کے بعد انہوں نے یہی کچھ کیا۔ ہندوکش کے دامن میں ہونے والے ہیورڈ کے قتل کا معمہ اب تک حل نہ ہو سکا۔
مہاراجہ نے انگریزوں کا شک دور کرنے اور اپنے آپ کو فرنگیوں کے ممکنہ غیظ و غضب سے بچانے کے لیے ہیورڈ کی قبر پر کتبہ لگوایا۔
چترال کے مہتر امان الملک نے میر ولی کو معزول کیا اور میر ولی نے زندگی بھر اپنے بے قصور ہونے کی قسمیں کھائیں۔ مگر اسے زندگی کچھ زیادہ نہیں ملی۔ معزول ہونے کے بعد وہ یارقند، کابل اور سوات گئے مگر کہیں پناہ نہیں ملی تو واپس چترال آ گئے۔
جب نئے حکمران پہلوان بہادر کے آدمیوں نے انہیں موت کے گھاٹ اتارا تو وہ اپنے ہی وطن میں بے یارومدگار اور اجنبی تھے۔
قتل کے چار ماہ بعد ہیورڈ کی لاش یا جو کچھ اس میں سے باقی بچا تھا، درکوت سے گلگت لائی گئی اور ایک باغیچے میں دفن کر دی گئی۔
یہاں پاس میں ایک ہی مزار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک بزرگ کا تھا جو کسی زمانے میں ہدایت دینے کے لیے کشمیر سے گلگت آئے مگر مقامی لوگوں کو ہدایت سے زیادہ اپنے علاقے میں کسی بزرگ کا مزار نہ ہونے کی فکر تھی۔ اس لیے انہیں قتل کر کے دفنایا گیا اور نہایت عقیدت سے ان کے مزار پر منتیں مانی جانے لگیں۔
گلگت میں اس وقت موجود واحد انگریز نے ہیورڈ کی قبر پر صلیب کا نشان لگایا اور انگریزی کے مشہور شاعر ہینری نیوبولٹ نے اپنی نظم He Fell Among the Thieves میں اسے امر کر دیا۔
میں اس احاطے کے اندر موجود اس خاموش باغیچے میں موجود ہیورڈ کی قبر پر کھڑا ہوں۔ میں اس مہم جو سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا چیز ہے جو ہمیں خواہشوں کی گھن چکر سے نکال کر جنون کے بے کراں میدانوں میں کھلا چھوڑ دیتی ہے؟ خواہشات سے جنون کا فاصلہ کتنا ہے اور کیسے طے ہوتا ہے؟ میں ہیورڈ کی آنکھوں کو دیکھنا چاہتا ہوں جن میں درکوت اور اس کے پیچھے ابھرتے ہوئے روشن سورج کا منظر نقش ہے۔
جب میر ولی کو اپر چترال کے گاؤں کھوژ میں قتل کیا گیا تو انہوں نے آخری سعتوں میں ایک صنوبر کے تنے پر شعر لکھا:
اجل زور است اجل زور است اجل زور
اجل چشمِ خرد مند شواد کور
موت کے روبرو اور اس کی طاقت کے آگے سرنگوں ہوتے ہوئے میر ولی نے اقرار کیا کہ یہ خرد مندوں کی آنکھوں سے بینائی تک چھین لیتی ہے۔ مگر خرد مندوں کو کور کرنے والی موت بھی ایک جہان گرد کی آنکھوں کو گہنا نہیں سکی اور ہیورڈ اپنی حسرت نا تمام درکوت کی ایک روشن تصویر آنکھوں میں سجائے، اب بھی اجل کے اس پار کی انجان وادیوں میں کسی مہم میں مصروف ہیں۔