کراچی میں پولیس کے مطابق جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب پریڈی تھانے کی پارکنگ میں دستی بم حملہ ہوا، جس کے نتیجے میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
اسی حوالے سے ایس ایس پی ساؤتھ مہزور علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’کریکر دھماکہ رات 12 بج کر 16 منٹ پر ہوا۔ تاہم زخمی ہونے والے اہلکار خطرے سے باہر ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’تاہم یہ کہنا مناسب نہیں ہو گا کہ یہ ایک دہشت گردی کا واقعہ ہے کیونکہ ابھی تک کسی بھی تنظیم نے حملہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ جبکہ ابتدائی معلومات کے مطابق حملہ RGD5 گرنیڈ سے کیا گیا ہے۔‘
چھیپا ذرائع کے مطابق زخمی اہلکاروں کی شناخت ارشد ولد عجائب (عمر 45 سال)، عامر ولد ظفر اقبال (عمر 25 سال) اور ریاض ولد سرور (عمر 36 سال) سے ہوئی ہے۔
زخمی اہلکاروں کو فوری طور پر طبی سہولت کے لیے جناح ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایس ایس پی مہزور علی کے مطابق: ’کریکر تھانے کے مرکزی گیٹ پر پھینکا گیا، جس کے بعد زور دار دھماکا ہوا۔ جبکہ تھانے کے آس پاس کھڑی موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا جبکہ کچھ گاڑیوں کے شیشے بھی ٹوٹے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ دھماکے کے بعد بم ڈسپوزل سکواڈ اور سکیورٹی اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق، جس کریکر سے دھماکہ ہوا وہ کم شدت کا تھا۔
پریڈی تھانے کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟
ایس ایس پی مہزور علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جس علاقے میں پریڈی تھانہ واقع ہے یہ کراچی کا مصروف علاقہ ہے، شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ کا بھی ایک بڑا حصہ اس کی حدود میں آتا ہے۔ جہاں تجارتی مراکز اور بازار موجود ہیں۔
’جس سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ دھماکہ سنسنی پھیلانے کے لیے بھی کیا گیا ہو۔ لیکن دیکھا جائے تو اس علاقے میں ہم محفوظ نہیں ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ اور پریڈی تھانے کے اطراف بچ نکلنے کے متبادل راستے موجود ہیں کیونکہ یہ شہر کے مرکز میں واقع ہے۔‘
سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پریڈی تھانے پر نامعلوم افراد نے کریکر پھینکا۔ موٹر سائیکل سوار ملزمان کریکر پھینک کر فرار ہوئے جو تھانے میں ڈیوٹی افسر کے کمرے کے باہر گرا ہے۔
تاہم ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ کیمروں کی فوٹیج کے ذریعے حملہ آوروں تک پہنچیں گے، واقعے سے متعلق مزید تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔
جرائم کی خبروں پر گہری نظر رکھنے والے صحافی کامل عارف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ماضی میں بھی پریڈی تھانے کے افسران اور تھانہ حملہ آوروں کے نشانے پر رہ چکا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق ایک واقعہ 2010 کا ہے جب ایس پی پریڈی رب نواز رانجھا کو ڈرائیور سمیت ایم اے جناح روڈ پر ریڈیو سٹیشن کے قریب فائرنگ کر کے مارا گیا تھا۔
’ 2014 میں ایس ایچ او پریڈی غصنفر علی کاظمی جو کراچی آپریشن میں شریک تھے ان کو کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ مزید 2015 میں ایس ایچ او پریڈی تھانہ اعجاز خواجہ کو اختر کالونی میں فائرنگ کر کے مارا گیا۔ جبکہ پریڈی تھانے کی پولیس موبائل پر بھی دستی بم حملے اور فائرنگ ہوتی رہی ہے۔‘
صحافی کامل عارف نے کہا کہ ماضی میں پریڈی تھانے کے ٹارگٹ ہونے والے افسران کو اس لیے نشانہ بنایا گیا اس وقت شدت پسندی کے واقعات کا تناسب زیادہ تھا اور یہ افسران شدت پسندی کے خاتمہ کے لیے سر گرم رہے ہیں کئی آپریشن میں بھی شریک رہے۔
’تاہم پریڈی تھانہ اس لیے بھی نشانے پر رہا ہے کیونکہ یہ ایک آسان ٹارگٹ ہے جہاں سے ملزمان کا بچ کر نکلنا آسان ہے۔‘
دوسری جانب وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے پریڈی تھانے پر کریکر دھماکے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ جبکہ پولیس کے اعلیٰ حکام اور سی ٹی ڈی حکام کو جائے وقوع پر پہنچنے کی ہدایت دے دی۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ایسے حملے ناقابل برداشت ہیں تاہم سکیورٹی کو مربوط بنایا جائے۔