’سمندر کی ایک تصویر، سال ہے 1619 اور اگست کا مہینہ ہے۔ ایک بحری جہاز برطانوی نوآبادی ورجینیا کے ساحلی پوائنٹ کمفرٹ پر نمودار ہوتا ہے۔ اس جہاز میں افریقہ سے آئے 20 غلام موجود ہیں جنہیں یہاں فروخت کے لیے لایا گیا ہے۔ اس کنارے پر آگے چل کر جو وطن بنا، اس کا کوئی پہلو غلامی کی سوچ سے الگ نہ رہا، یہ غلامی آنے والی ڈھائی صدیوں تک اس ملک کے رگ و پے میں سمائی رہی۔ آج اس واقعے کے چار سو سال بعد موقع آ گیا ہے کہ پوری کہانی سچائی سے سنا دینی چاہیے۔‘
2019 میں امریکہ میں غلامی کے چار سو سال پورے ہونے پر نیویارک ٹائمز نے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی۔ اس پلٹزر پرائز کی فاتح رپورٹ کا عنوان تھا، ’پروجیکٹ 1619۔‘ اس کی ابتدائی سطریں درجہ بالا تھیں۔
نیویارک ٹائمز کو یہ رپورٹ لکھنے کا خیال کیسے آیا؟ امریکہ جیسے ملک کہ جہاں لکھنے، بولنے اور احتجاج کی آزادی دوسرے ملکوں سے کہیں زیادہ ہے وہاں احتجاج کو طاقت سے کیوں روکا جارہا ہے؟ ؟ کیا آج بھی کسی نہ کسی پہلو میں غلامی یا رنگ کی تفریق کی بنا میں اس دیس میں کچھ نہ کچھ مشکوک ہے؟ کیا امریکن ڈریم صرف خاص چمڑی کی رنگت تک محدود ہو رہا ہے؟ کیا آئین کے تحت سب انسانوں کے حقوق برابر ہیں؟
ان سوالوں کو حال اور ماضی کے چند واقعات سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حال ہی میں امریکہ میں جلاؤ گھیراؤ کے غیر معمولی اور حیران کن مناظر سامنے آئے جن کو دیکھ کر سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا یہ واقعی ایک سپرپاور ملک کا حال ہے؟ مظاہروں اور احتجاج کے دوران لوگوں کی جان بھی گئی، پولیس کی بے بسی دیکھی اور حکومتی رٹ مذاق بن گئی۔ امریکی صدر کو یہ کہنا پڑ گیا کہ ’اگر لوٹنگ شروع ہو گی تو شوٹنگ بھی شروع ہو جائے گی (If the looting starts, shooting starts) اور ساتھ ہی ساتھ فوج کو بھجنے کی بات کی گئی۔ وائٹ ہاؤس کو بھی احتجاجیوں نے گھیر لیا۔ ٹرمپ نے ان واقعات کو اپنی حکومت کی عوامی تصویر کو خراب کرنے کی سازش قرار دیا۔
یہ سب ہوا 46 سالہ جارج فلائیڈ کے مارے جانے سے، ایک ایسا شخص جو سیاہ فام تھا، صرف 20 ڈالر کے ایک نوٹ کے عوض پولیس کی بربریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ فلائیڈ پر جعل سازی کا الزام لگا، جی ہاں صرف الزام اور اس الزام کی وجہ سے وہ جان سے گیا مگر جہان میں ایک نہ روکنے والے احتجاج کی بنیاد بن گیا۔
سات منٹ تک پولیس اہلکا ر جارج فلائیڈ کی گردن پر اپنے گھٹنے کی زور پر چڑھا رہا اور جارج تین سے چار منٹ یہ کہتا رہا، ’مجھے سانس نہیں آ رہا، مجھے پانی دو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ نعرہ افریقی امریکیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے خاصا حساس رہا ہے۔ اس سے قبل ایسا ہی ایک واقعہ ایرک گارڈنر کی موت بنا تھا، جو پولیس سلوک کی وجہ سے جان گنوا بیٹھا۔ ایرک کی موت اور اس کے بعد ’آئی کانٹ برید‘ تحریک ایک ایسے وقت میں ہوئی جب مسند اقتدار پر ایک سیاہ فام موجود تھا۔
موقر اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقی امریکیوں کی ایک بڑی تعداد نامساعد حالات، ناانصافی، تعصب اور تفریق کا شکار ہے اور ان سب میں امریکی شہر کہ جہاں جارج فلائیڈ کی موت ہوئی، اس کی حالت سب سے بری ہے۔ جارج کی موت نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور یہ مہم جنگل کی طرح پورے امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
افریقی امریکیوں کا شکوہ ہے کہ ان کے لیے تعلیم کے مواقع ہوں یا صحت یہاں تک کہ نوکریوں میں تنخواہیں بھی سفید فاموں کے برابر نہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پولیس ان کے ساتھ غیروں کی طرح برتاؤ کرتی ہے، انہیں ڈراتی ہے، دھمکاتی ہے اور ہراساں کرتی ہے کہ ہم اپنے ہی ملک میں سانس لینے سے عاری ہیں۔ ’وی کانٹ برید۔‘
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی ریسرچ کے مطابق 2045 میں امریکہ میں سیاہ فام اقلیت سے اکثریت میں تبدیل ہو جائیں گے، یعنی محض 25 سال میں امریکہ بدل جائے گا۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ایسے واقعات اس عرصے سے قبل ہی ان معاملات کو بدل کر نہ رکھ دیں کیوں ظلم تو ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ کیا سفید فاموں کو اپنے سٹیٹس کو لے کر خطرہ ہے؟
جارج فلائیڈ کی موت پر احتجاج امریکہ میں ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کیوں کہ امریکہ اس وقت ویسے ہی کرونا وائرس کی وجہ سے تشویش ناک صورتِ حال سے دوچار ہے۔
اور آخر میں 1962 میں بنائے گئے ورجینیا کے قانون کے تحت غلامی کو موروثی بنا دیا گیا۔ طے پایا کہ غلام ماں کا بچہ بھی غلام ہی ہو گا۔
مگر لگ یوں ہی رہا ہے کہ فلائیڈ کی موت رائیگاں نہیں جائے گی۔ ہم توقع رکھ سکتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں لوگوں میں شعور پیدا ہو گا اور امریکہ کے ماتھے سے تعصب کا یہ داغ دھونے کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو گا۔