اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیاتی تبدیلی پر سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں جاری بین الاقوامی کانفرنس کوپ 26 میں ترقی پذیر ملکوں نے دنیا کے امیر ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنے وعدے پورے کریں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ترقی پذیر ملکوں نے دنیا کی بڑی معیشتوں سے کہا ہے کہ وہ مالی امداد کے وعدے پورے کریں تا کہ ماحولیاتی بحران کے مسئلے سے نمٹا جا سکے۔ دوسری جانب دنیا میں زیادہ آلودگی پھیلانے والے بڑے ملکوں بھارت اور برازیل نے کاربن کے اخراج میں کمی کے نئے عزم کا اظہار کیا ہے۔
کانفرنس میں شریک عالمی رہنماؤں، ماحولیاتی ماہرین اور تحفظ ماحول کے لیے سرگرم کارکنوں نے کہا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں کیونکہ درجہ حرارت بڑھنے سے کرہ ارض کا مستقبل خطرے میں پڑ چکا ہے۔
گذشتہ ہفتے کے اختتام پر 20 بڑے صنعتی ملکوں کے گروپ ’جی 20‘ کی جانب سے ماحول کے تحفظ کے حوالے سے نئے وعدوں پر عدم اتفاق کی وجہ سے مذاکرات کاروں کے کام کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔
جی 20 عالمی سطح پر 80 فیصد گرین ہاؤس گیسز اور اسی تناسب سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا ذمہ دار ہے۔ یہ گیس پتھر کی شکل میں پائے جانے والے ایندھن کو جلانے سے پیدا ہوتی ہے جو عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافہ شدید گرمی کی لہر کی شدت میں اضافے، خشک سالی، سیلابوں اور سمندری طوفانوں کا سبب بن رہا ہے۔
ماحولیاتی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایمازون کے بارانی جنگلات کے علاقے سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ نوجوان رہنما چائی سوروی نے کہا: ’جانور غائب ہوتے جارہے ہیں۔ دریا خشک ہو رہے ہیں اور ہمارے درختوں پر اس طرح پھول نہیں آتے جیسے پہلے آیا کرتے تھے۔ زمین بول رہی ہے۔ وہ ہمیں بتا رہی ہے کہ ہمارے پاس مزید وقت نہیں ہے۔‘
ملاوی کے صدر لامورس مک کارتھی کا کہنا تھا کہ ’امیر ممالک نے جو رقم دینے کا وعدہ کیا ہے، وہ عطیہ نہیں ہے بلکہ صفائی کی فیس ہے۔‘
چین جو دنیا میں گرین ہاؤس گیسز خارج کرنے والا سب بڑا ملک ہے، کے صدر شی جن پنگ نے اپنے لکھے ہوئے بیان میں کہا کہ ’ترقی یافتہ ممالک کو نہ صرف مزید کام کرنا ہوگا بلکہ ترقی پزیر ممالک کی مدد بھی کرنی چاہیے۔‘
برازیل کے صدر جیئر بولسنارو کا کہنا تھا کہ ’ہم ذمہ داری کے ساتھ کام کریں گے اور اس مسئلے سے جلد از جلد نمٹنے کے لیے حل تلاش کریں گے۔‘
برازیل نے وعدہ کیا ہے کہ وہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو 2030 تک 50 فیصد تک کم کرے گا۔ برازیل نے اس سے قبل 43 فیصد تک اخراج کو کم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کاربن کے صفر اخراج کے لیے 2070 کا ہدف طے کیا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے عالمی سطح پر طے کردہ اہداف کے مقابلے میں کہیں آگے کا وقت ہے۔
جی 20 اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے جو 2050 کے لیے کاربن کے اخراج سے متعلق طے کیے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہونے والی کوپ 26 کا مقصد عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح سے 1.5 درجے سیلسیئس تک محدود رکھنا ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے بلند حوصلے کے مزید وعدوں کی ضرورت ہے تاکہ گیسوں کے اخراج میں کمی لائی جا سکے، ماحول کو بچانے کے لیے ترقی پذیر ملکوں کے لیے اربوں ڈالر مختص کیے جا سکیں اور 2015 کے پیرس معاہدے پر عمل درآمد کے قواعد و ضوابط کو حتمی شکل دی جا سکے۔ پیرس معاہدے پر تقریباً 200 ملکوں نے دستخط کیے۔
اب تک جو وعدے کیے گئے ان کی مدد سے اس صدی کے دوران زمین کے درجہ حرارت میں اوسط اضافے کو 2.7 درجے تک محدود رکھا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں یہ اضافہ اس تباہی میں بہت زیادہ تیزی لانے کا سبب بنے گا جو ماحولیاتی تبدیلی پہلے سے کر رہی ہے۔
پیر کو 100 سے زیادہ عالمی رہنماؤں نے وعدہ کیا کہ جنگلات کی کٹائی اور زمینی انحطاط کو روک کر انہیں بحال کیا جائے گا۔
جنگلات کے تحفظ اور بحالی کے لیے سرکاری اور نجی سطح پر 19 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے عالمی نمائندوں کو یاد دلایا کہ 2015 کے بعد سے چھ گرم ترین سال ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔
کینیا، بنگلہ دیش، بارباڈوس اور ملاوی کے رہنماؤں نے امیر ممالک پر زور دیاہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرنے کے لیے اقدامات کریں۔