صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں ایک گاؤں میں عوام نے متفقہ طور پر شادیوں میں صرف کھجور پیش کرنے اور بارات میں گاڑیوں کی تعداد کو محدود کرنے سمیت دیگر اقدامات پر اتفاق کیا ہے جبکہ خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان کا نماز جنازہ امام مسجد نہیں پڑھائیں گے۔
گاؤں درخشیل کے رہائشیوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ’بارات میں پانچ گاڑیوں سے زیادہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور نکاح میں کجھور یا شربت سے مہمانوں کی تواضع کی جائے گی۔‘
یہ آئیڈیا گاؤں کے ایک سابق سرکاری استاد خادم اللہ کا تھا، جنہوں نے اپنے ایک رشتہ دار انور اللہ کے ساتھ مل کر اس پر مزید کام کیا اور آخرکار اس میں کامیاب ہو گئے۔
خادم اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میرا بہت پہلے سے ارادہ تھا کہ اس قسم کا ایک متفقہ فیصلہ کیا جائے تاکہ خوشی اور غم کے دوران بے جا رسم و رواج سے ہمیں چھٹکارا مل سکے اور میری وہ خواہش اب پوری ہوگئی۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس فیصلے پر گاؤں کے سارے لوگ بہت خوش ہیں کیوں کہ ہمارے معاشرے میں مختلف رسم و رواج میں اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے تھے کہ ایک غریب حتیٰ کہ ایک متوسط طبقے کے فرد کی برداشت سے بھی باہر ہوگئے تھے۔‘
کیا یہ فیصلہ کسی جرگے نے کیا ہے؟
خادم اللہ نے بتایا کہ اس کے لیے ایک لائحہ عمل بنایا گیا ہے، جس کے تحت مسجد کی سطح پر تین رکنی کمیٹی بنائی گئی اور اس کا سربراہ مسجد کے امام کو بنایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ کمیٹی اس قسم کے رسم و رواج پر نظر رکھے گی اور لوگوں میں مزید آگاہی پھیلائی گی تاکہ یہ صرف ایک گاؤں تک محدود نہ رہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ آس پاس کے سارے دیہات میں لاگو ہوسکے۔‘
خادم اللہ نے بتایا: ’مسجد کے امام نے ہر محلے سے اپنے ساتھ دو ایسے افراد کمیٹی میں شامل کیے ہیں جو محلے کے با اثر افراد ہوں اور لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت بھی ہو۔ یہی کمیٹی عوام میں آگاہی پھیلائے گی۔‘
جس گاؤں میں یہ کمیٹی بنائی گئی ہے، اس کی آبادی خادم اللہ کے مطابق چھ ہزار سے زیادہ ہے اور وہ سوات کے بڑے گاؤں میں سے ایک ہے۔
کیا فیصلے کیے گئے ہیں؟
درخشیل گاؤں کے دیہاتیوں نے جو فیصلے کیے ہیں، انہیں ایک پمفلٹ کی صورت میں عوام میں تقسیم بھی کیا گیا، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے۔
اس پمفلٹ میں مختلف تقاریب کے حوالے سے فیصلے کیے گئے ہیں، جس میں سب سے پہلے نکاح شامل ہے۔
فیصلے کے مطابق نکاح کی رسم کے موقع پر کھجور یا شربت پیش کیا جائے گا۔
خادم اللہ نے بتایا: ’ہمارے گاؤں میں نکاح کی تقریب میں اتنے خرچے ہوتے ہیں کہ ایک غریب اور متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے کی برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ نکاح میں بھی ضرورت سے زیادہ خرچے ہوتے ہیں اور شادی جیسی تقریب منعقد کی جاتی ہے۔‘
ایک اور فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ شادی پر مہنگے عروسی ملبوسات کا رواج نہیں ہوگا بلکہ استطاعت کے مطابق شادی کا جوڑا خریدا جائے گا۔
خادم اللہ نے بتایا کہ آج کل کے زمانے میں عروسی لباس 50 ہزار سے لے کر دو اور تین لاکھ روپے تک میں خریدا جاتا ہے، جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کی استطاعت سے باہر ہے۔
اسی طرح فیصلے کے مطابق شادی میں مہر استطاعت کے مطابق طے ہوگا اور ایک خاندان دوسرے کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں کرے گا۔
یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ شادی کے بعد عید یا شب قدر کا رواج بھی نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ ملاکنڈ ڈویژن میں ایک رواج ہے کہ شادی کے بعد پہلی عید آنے پر دلہا کے گھر والے دیگیں اور دیگر چیزیں دلہن کے گھر لے جاتے ہیں جبکہ پرانے زمانے میں دلہن ایک خاص مہینے میں میکے جاتی تھی اور اپنے ساتھ خوراک کی چیزیں لے کر جاتی تھی، اسے شب قدر کہتے ہیں۔
اسی فیصلے کا ایک نکتہ دلہن کے کپڑوں کے تناظر میں ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں ایک رواج یہ بھی ہے کہ دلہن کے گھر والے دلہا کے قریبی رشتہ داروں جبکہ دلہا کے گھر والے دلہن کے رشتہ داروں کے لیے کپڑے بطور تحفہ دیتے ہیں جس کو ’دویش جوڑے‘ (تقسیم کے جوڑے) کہا جاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ رواج بھی نہیں ہوگا جبکہ دلہن کے لیے 10 سے زیادہ کپڑے نہیں خریدے جائیں گے۔
خادم اللہ نے بتایا کہ آج کل آتش بازی بھی ایک رواج بن گیا ہے اور اس پر سرکاری طور پر پابندی بھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’فیصلے میں آتش بازی پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ ان تمام فیصلوں پر پہلے ہم نے علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور ان کی اجازت سے ہم نے یہ فیصلے کیے ہیں۔‘
جہیز کے حوالے سے فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ دلہن کے گھر والے جہیز کم سے کم کریں گے جبکہ دلہن کے گھر والے دلہا کے گھر والوں کو کسی قسم کی نقدی یا سونا نہیں دیں گے۔
خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں یہ رواج بھی اب عام ہے کہ دلہن کے گھر والے دلہا کی والدہ یا دلہا کے لیے سونے کی انگوٹھی تحفے میں دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فیصلوں کا ایک اور جز فوتگیوں کے حوالے سے ہے۔ خادم اللہ نے بتایا کہ آج کل کے زمانے میں فوتگی کو بھی شادی کی تقریب جیسا بنا دیا گیا ہے اور جس گھر میں فوتگی ہوتی ہے تو وہ دعا کے لیے آنے والوں کے لیے باقاعدہ دو وقت کے کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’ایک طرف جس گھر میں فوتگی ہوئی ہوتی ہے وہ غم سے نڈھال ہوتا ہے اور دوسری جانب وہ لوگوں کے لیے کھانوں کا بندوبست کرتا ہے تو فیصلے میں اس پر بھی پابندی لگائی گئی ہے جبکہ فوتگی کے بعد آٹھواں اور چالیسواں بھی نہیں ہوگا۔‘
یہ رسم و رواج کیسے آگئے؟
عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ پشتو کے پروفیسر بدرالحکیم رحیم زئی کا تعلق اسی گاؤں سے ہے جہاں پر یہ فیصلے کیے گئے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان رسم و رواج میں اضافے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم تہذیبی ارتقا سے نہیں گزرے، یعنی ایک جمپ لگا کر ہمارے پاس اتنا پیسہ آگیا ہے کہ اس کو خرچ کرنے کا طریقہ اب ہمیں نہیں آتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’معاشرے ارتقا کے ایک عمل سے گزرتے ہیں اور علمی بنیاد پر وہ آگے کے فیصلے کرتے ہیں۔ اب ہمارے زیادہ تر لوگ بیرون ملک ہیں یا یہاں زیادہ پیسے کماتے ہیں لیکن ان کی علمی سطح اتنی بلند نہیں ہوتی اور اس کی وجہ سے وہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اتنے پیسوں کو کیسے خرچ کریں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا رواج تو حجرہ ہے اور حجروں میں شادی بیاہ کی تقریبات ہوتی تھیں لیکن ہم اب شادی ہالوں میں منتقل ہوگئے ہیں اور ہم سے حجرے کا رواج پیچھے رہ گیا ہے۔‘
رحیم زئی نے بتایا: ’اس کا ایک نقصان یہ ہوگیا ہے کہ ایک بھائی اگر کماتا ہے اور دوسرا بھائی اگر غریب ہے تو وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتا ہے اور پھر وہ ہر طریقے سے اسی طرح تقریب کا انعقاد کرتا ہے جس طرح اس کے بھائی نے کیا۔‘
اسی وجہ سے رحیم زئی کے مطابق یہ رسم و رواج مشکل ہوتے جا رہے ہیں اور اب جن لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہے ان کا تعلق بھی متوسب گھرانوں سے ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور ان رسم و رواج پر جتنا جلدی ہو سکے پابندی لگانی چاہیے۔
فیصلے کی خلاف ورزی پر کیا ہوگا؟
اس سوال پر خادم اللہ نے بتایا کہ ’ہمارے پاس کوئی پولیس یا فورس تو نہیں ہے، تاہم ہم نے یہ ضرور کیا ہے کہ چونکہ اس کمیٹی کے سربراہ مسجد کے امام ہیں، لہذا اگر کسی نے خلاف ورزی کی تو اس محلے کے امام اس شخص کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے۔