پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سینیارٹی کی شرط تصوراتی ہے۔‘
اس بات کا اظہار انہوں نے منگل کو انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’سارے جنرلز جو ریکمنڈ ہو کے آتے ہیں وہ ایک کورس سے ہی ہوتے ہیں۔ تو سنیارٹی ایک تصوراتی سی چیز ہے کہ وہ اپنے کورس میں کس نمبر پر پاس آؤٹ ہوئے تھے، اس سے یہ تصور طےکیا جاتا ہے۔‘
’ورنہ ان کے کمشن کی تاریخ سب کی ایک ہی ہوتی ہے۔ ایک ہی دن انہوں نے کمشن لیا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر آج پانچ یا چھ نام آتے ہیں تو ان سب کے سب، انہوں نے ایک ہی دن کمشن لیا ہوتا ہے۔ تو یہ محض ایک تصوراتی چیز ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں بھی دوسرے، پہلے، تیسرے، پانچویں یا ساتویں نمبر والے افسران کی تعیناتیاں ہوتی رہی ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی تعیناتی ساتویں نمبر سے ہوئی تھی۔‘
وزیر دفاع نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق لسٹ جی ایچ کیو سے تاحال موصول نہیں ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تاحال آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل شروع نہیں ہوا البتہ چند روز میں یہ عمل شروع ہو جائے گا۔‘
’ماضی میں بھی 18 نومبر کے بعد یہ عمل شروع ہوا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صدر کی وساطت سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو اجلاس ہوئے وہ میڈیا میں آ چکے ہیں۔ میں اس پر قیاس آرائی نہیں کرنا چاہوں گا کیوں کہ یہ دو بہت مختلف چیزیں ہیں کیوں کہ وہ ایک سیاسی احتجاج کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ان کا مقصد حکومت کو پریشرائز کرنا ضرور ہو سکتا ہے، یہ ایک اہم فیصلہ ہے۔‘
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے مشاورت جاری رہتی ہے۔ وزیراعظم کو رہنمائی کی ضرورت ہو تو وہ خود چلے جاتے ہیں۔ تعیناتی کے معاملے پر ان کو ضرور بتایا گیا ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک مرتبہ عمل شروع ہو گا تو ہی اس پر کمنٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کو عمران خان نے ہوا دی ہوئی ہے کیوں کہ وہ اس معاملے پر تنازع چاہتے ہیں جو نہیں ہو گا۔‘
’اگر پچھلے ایک سال کی تاریخ دیکھیں، اکتوبر میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری پر جو اختلافات شروع ہوئے، اس کا پس منظر بھی یہی تھا کہ آگے آنے والے وقت میں یعنی آج کے نومبر کے مہینے میں اس تقرری پر اثراندازی کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ ادارے کے لیے بہتر سوچ رہے تھے بلکہ وہ اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ چاہتے تھے۔ ان کا آئیڈیا غلط تھا یا صحیح، اس میں نہیں جانا چاہتا۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ ’جو تنازع اکتوبر 2021 میں شروع ہوا، ان کے ذہن میں آج بھی یہ بات ہے کہ یہ ایک بڑی اہم تعیناتی ہے، اس تعیناتی کے حوالے سے ان کے سیاسی کرئیر کے سٹیکس بڑھ گئے ہیں۔ اسی لیے وہ دباؤ بڑھا رہے ہیں، لیکن حکومت کسی دباؤ میں نہیں ہے۔ ان کی ترجیح وطن کا مفاد نہیں ان کی اپنی ذات ہے۔‘
جنرل عاصم منیر کے 27 نومبر کو ریٹائر ہونے سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’میں اس پر قطعی طور پر کوئی کمنٹ نہیں کروں گا، نہ مجھے اتنی تفصیل کا پتہ ہے۔ جب میرے پاس کاغذات آئیں گے، میں وزیراعظم کے پاس لے کر جاؤں گا۔ اس وقت یہ ساری چیزیں دیکھی جائیں گی۔‘
’میڈیا کو اس پر کمنٹ کرنے سے گریز کرنا چاہیے، یہ قومی تحفظ کا مسئلہ ہے۔ سرعام اسے زیر بحث نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا ایک تقدس ہے۔ اس ادارے اور قوم کی سکیورٹی اور دفاع کے حوالے سے ایک ریکوائرمنٹ ہے، اسے میڈیا گپ شپ کا موضوع نہیں بننا چاہیے۔‘
عمران خان کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’غداری کے مقدمے کا تعین قانون ہی کرے گا۔ انہوں نے ملک کا وقار داؤ پر لگایا ہے اور بیرونی سازش اور سائفر کا فراڈ شروع کیا۔ تحریک عدم اعتماد کے دنوں میں انہوں نے ’مجھے ہٹانے میں امریکہ شامل ہے‘ جیسی چیزیں استعمال کیں۔‘
’انہوں نے نام بھی لیے، جلسوں کا موضوع بھی بنایا۔ عدالت تعین کرے گی کہ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر ذاتی مفاد کی بنا پر پاکستان کی عزت کو داؤ پر لگایا۔‘
عمران خان گذشتہ دنوں اپنے جلسوں میں کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں اپنی مرضی کا فوجی سربراہ نہیں چاہیے اور اس تقرری کو میرٹ پر کیا جانا چاہیے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیان پر کہا کہ ’یہ بڑے آرام سے کہتے ہیں اٹ از اوور فور می، اٹ از بی ہائنڈ می‘ اس طرح نہیں ہوتا۔ ان کا اس معاملہ پر احتساب ضرور ہو گا کہ انہوں نے اتنا زیادہ اس مفروضے کو ہوا دی کہ امریکہ نے ایسے کیا بلکہ ساتھ نام بھی لیے۔‘
’جو آڈیو لیک ہوئی تھی کہ ’ہمیں اس ایشو پر کھیلنا ہے‘، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص ذاتی مفاد کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے، ملکی سکیورٹی کو داؤ پر لگا سکتا ہے۔ اس شخص کے لیے وطن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘
وزیر دفاع خواجہ آصف نے تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان رابطوں کے تاثر کو بھی مسترد کیا۔ تحریک انصاف سے رابطوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’میرے پاس بالعموم تمام اطلاعات ہوتی ہیں لیکن میرے علم میں قطعی طور پر ایسی کوئی انفارمیشن نہیں ہے۔ ان کی کوشش یا خواہش ہو سکتی ہے۔ ماضی میں پارلیمانی رہنماؤں کے درمیان غیر رسمی رابطے رہے ہوں لیکن باضابطہ رابطہ کسی سیاسی سطح پر نہیں ہوا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خواجہ آصف نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’لانگ مارچ کے شرکا جی ٹی روڈ پر کھجل ہو رہے ہیں، جب لبرٹی مارکیٹ سے شروع ہوئے تو 15 ہزار افراد اکٹھے ہوئے۔ کل یہ منڈی بہاؤالدین میں لوگوں کو دو، دو ہزار روپے بانٹتے نظر آئے کہ جلوس میں شامل ہوں۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ کہاں سے شروع ہوا اور کہاں پہنچ گیا ہے۔‘
خواجہ آصف کا ارشد شریف کے قتل سے متعلق کہنا تھا کہ ’عمران خان نے ارشد شریف کو خبردار کیا تھا کہ ملک سے چلے جاؤ، سلمان اقبال نے بھی یہی کہا۔ یہ تمام باتیں ریکارڈ پر ہیں۔ اب دونوں سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کے پاس کیا انفارمیشن تھی کہ انہیں خبردار کیا؟ اگر کوئی معلومات ہیں تو ریاست اور پولیس کے ساتھ شیئر کریں۔‘
’حکومت ان سے پوچھ گچھ کرے گی، بندے کینیا بھی گئے ہیں۔ وہاں سے تمام شواہد اکٹھے کریں۔ لیکن جو افراد ارشد شریف کے ساتھ مخلص ہیں وہ کیوں پاکستان نہیں آتے اور تفتیش کا حصہ نہیں بنتے؟ عمران خان کے پاس کوئی تفصیل ہے؟ انہوں نے خود یہ کہا، یا پھر یہ ’بیرونی سازش‘ کی طرح ارشد شریف کی موت کو بھی سیاسی طور پر استعمال کر رہے ہیں؟ اگر انہیں واقعی اس بات کا دکھ ہے تو معلومات کو شیئر کریں۔‘
’ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے اس وقت تک نہ سلمان اقبال نے رابطہ کیا نہ عمران خان نے۔ سنا ہے انہیں بہت قریب سے گولیاں لگی ہیں، انہیں کس نے بھجوایا؟ کینیا کون لے کر گیا؟ کینیا میں جن لوگوں کے پاس تھے ان کے ساتھ ان کا کیا تعلق تھا؟‘
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’ماضی کے کیسز کی طرح یہ ’اندھا قتل‘ ہو جائے گا اور یہ چیز منظر عام سے ہٹ جائے گی۔‘
’جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس معلومات ہیں، انہیں آگے آنا چاہیے ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ اہم معلومات کو چھپا رہے ہیں۔‘