غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خلاف ہفتے کو کیمبرج یونیورسٹی کے تاریخی سینیٹ ہاؤس پر فلسطین کے حامی طلبہ نے سرخ رنگ کا چھڑکاؤ کر دیا۔
سرخ رنگ کا چھڑکاؤ 18ویں صدی سے کیمبرج یونیورسٹی میں گریجویشن کی تقریبات کے لیے استعمال ہونے والے سینیٹ ہاؤس کی عمارت پر کیا گیا۔ یہ ایسے وقت پر کیا گیا جب رواں برس کی گریجویشن تقریبات منعقد ہونے میں صرف ایک ہفتہ باقی ہے۔
فلسطین کے حامی نیٹ ورک فلسطین ایکشن نے ایکس پر ایک پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے بتایا کہ ’کیمبرج کے طلبہ نے فلسطین ایکشن کے تعاون سے تاریخی ہال پر سرخ رنگ کا چھڑکاؤ کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’اس عمل سے وہ ’فلسطین میں جاری خون ریزی‘ کی عکاسی کرنا چاہتے ہیں۔‘
فلسطین ایکشن نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا کہ عمارت پر سرخ رنگ کا چھڑکاؤ ایک ایسے تعلیمی سال کے اختتام پر کیا گیا ہے، جس میں یونیورسٹی کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے، حتیٰ کہ اس کے خلاف ایک بیان تک جاری نہیں کیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتظامیہ نے طلبہ، عملے اور سابق طلبہ کی جانب سے متعدد بار کی گئی ڈائیلاگ کی درخواستوں کو بھی نظر انداز کیا۔
اس عمل میں حصہ لینے والے ایک رکن نے کہا: ’یونیورسٹی کی انتظامیہ عالی شان عمارتوں میں بیٹھی ہے، انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور غزہ میں جاری نسل کشی میں حصہ ڈالنے کی انہیں ذرا بھی پروا نہیں ہے۔‘
’سینیٹ ہاؤس کے سفید ستون سفید نسل کی بالادستی اور استعمار کی وراثت کی علامت ہیں جو آج بھی اسلحے کی کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور شراکت داری کے ذریعے جاری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کیمبرج کا گریجویشن ہال فلسطینیوں کے خون سے رنگا ہوا ہے اور اب یہ داغ نظر آنے لگے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دی انڈپینڈنٹ کے مطابق کیمبرج یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اپنے ترجمان کے ذریعے ’توڑ پھوڑ کے اس عمل کی شدید مذمت کی ہے۔‘
مئی 2024 میں کیمبرج یونیورسٹی سمیت یورپی ممالک کی کئی یونیورسٹیز میں طلبہ کی جانب سے فلسطین کے حق میں احتجاجی کیمپ لگائے گئے تھے۔
مظاہرین نے اس وقت تک احتجاج جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا جب تک کہ ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، انہوں نے نعرے لگائے تھے: ’اپنے طلبہ کو گریجویٹ ہونے دیں۔ آئیں اور بات چیت کریں۔‘
گذشتہ ماہ سینیٹ ہاؤس کے باہر فلسطینیوں کے حق میں دھرنے کی وجہ سے طلبہ کی گریجویشن تقریب ایک متبادل مقام پر کی گئی تھی۔
ماضی میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ ’اپنے طلبہ کے ساتھ بات چیت کرنے میں خوشی محسوس کرے گی تاہم کسی گمنام گروپ کے ساتھ بات چیت ناممکن ہے۔‘