جماعت اسلامی کارکنان کی رہائی کے احکامات جاری: وزیر

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا اتوار کو کہنا ہے کہ حکومتی وفد سے جماعت اسلامی کے پہلے مذاکراتی دور میں نظر بند کارکنوں کی رہائی کا فوری حکم جاری کر دیا گیا ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا اتوار کو کہنا ہے کہ حکومتی وفد سے جماعت اسلامی کے پہلے مذاکراتی دور میں نظر بند کارکنوں کی رہائی کا فوری حکم جاری کر دیا گیا ہے۔

راولپنڈی میں جماعت اسلامی کی مذاکراتی کمیٹی سے مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ’آج جماعت اسلامی کا وفد آیا، ان سے بات ہوئی، 35 کارکنان جو جنوبی پنجاب کے علاقے میں گرفتار ہیں ان کی فوری رہائی کے احکامات جاری کر دیے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی ہے۔ ہمارا ویژن ہے پاکستان کو چلنے دو۔ پہلے ہی دو سو یونٹ والے صارفین کو 50 ارب کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔‘

عطا تارڑ کے مطابق: ’ہم جماعت اسلامی کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے دن رات کام کیا جا رہا ہے۔ اگر عالمی مارکیٹ میں قیمتیں کم ہوئی تو تیل کی قیمت بھی کم کی جائے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کل مذاکرات کے اگلے دور میں کوشش ہو گی کہ ہم ان معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کریں تاکہ اس دھرنے کو روانہ کر دیا جائے۔‘

اس سے قبل جماعت اسلامی کے نائب امیر اور مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ لیاقت بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے احتجاجی دھرنے پر حکومت نے خود رابطہ کر کے بتایا کہ وہ وزرا کی کمیٹی کے ذریعے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’رات بھی وزرا کی کمیٹی دھرنے میں آئی تھی اور امیر جماعت اسلامی نے حکومت کی پیش کش کو قبول کیا اور جماعت اسلامی کی کمیٹی بنا دی۔ پہلا دور اچھے ماحول میں ہوا اور ہم نے اپنا ایجنڈا واضح الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بتا دیا کہ یہ ہمارا ذاتی ایجنڈا نہیں قوم کے مسائل ہیں۔ ہم نے بتایا کہ عوام کے لیے بجلی کے بل ادا کرنا ممکن نہیں۔ پیٹرول کی قیمتیں ناقابل برداشت ہو چکی ہیں۔

’تنخواہ پیشہ طبقہ پر اضافی ٹیکس کے باعث زندگی گزارنا مشکل ہے۔ آئی پی پیز پوری معیشت کے لیے موت کا پروانہ بن چکی ہیں۔‘

لیاقت بلوچ کے مطابق ’یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ لوگوں کو عالمی معاہدوں کا کہہ کر ٹال دیا جائے۔ حکومتی وزرا نے کہا ہے کہ ان چیزوں کو نوٹ کر لیا گیا اور ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں ان مطالبات پر بات چیت ہو گی۔‘

لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ ’جس کے بعد ہمارے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دور ہو گا تاہم احتجاج اور دھرنہ جاری رہے گا۔ گرفتار کارکنوں کے حوالے سے لیاقت بلوچ نے کہا کہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ ان کارکنوں کو رہا کر دیا جائے گا جس کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں کو رہا کر دیا گیا تاہم 35 افراد ابھی تک نظر بند ہیں جن کی فہرست حکومت کو دے دی ہے۔‘

لیاقت بلوچ کے مطابق: ’اگر حکومت ان مطالبات پر سنجیدگی سے کام کرے گی تو حکومت اور عوام کو ریلیف ملے گا ورنہ احتجاج اور دھرنہ حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کر دے گا۔ اب بال حکومت کی کورٹ میں ہے۔‘

قبل ازیں جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ اس کے اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے فریقین کی مذاکراتی کمیٹیاں روانہ ہوگئی ہیں۔ مذاکرات کا پہلا دور کمشنر آفس راولپنڈی میں ہوگا۔

جماعت اسلامی اسلام آباد کے ترجمان عامر بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ جماعت اسلامی کی مذاکراتی کمیٹی حکومتی کمیٹی سے مذاکرات کے لیے دھرنے سے روانہ ہو گئی ہے۔  جماعت اسلامی کی کمیٹی کی سربراہی نائب امیر لیاقت بلوچ کر رہے ہیں۔ سید فراست شاہ اور نصراللہ رندھاوا بھی اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔

ملک میں بے ہنگھم مہنگائی، بجلی قیمت میں اضافے اور بے جا ٹیکسوں کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان کا راولپنڈی میں دھرنا جاری ہے۔

گذشتہ شب وفاقی حکومت اور مظاہرین کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات پر اصولی اتفاق ہو گیا تھا تاہم جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ مطالبات نہ مانے گئے تو اسلام آباد ڈی چوک کی جانب جا سکتے ہیں۔

ہفتے کی رات وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کی سربراہی میں حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی راولپنڈی میں لیاقت باغ میں دھرنے کے مقام پر پہنچی جہاں انہوں نے دھرنے میں شریک رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔

عطااللہ تارڑ کے علاوہ حکومت کی کمیٹی میں انجینیئر امیر مقام اور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری شامل تھے جنہوں نے جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ سے ملاقات کی تھی۔

حکومتی وفد نے جماعت اسلامی کو باضابطہ مذاکرات کی دعوت دی تھی۔

جماعت اسلامی پاکستان نے جمعے کو اسلام آباد میں دھرنے کا آغاز کیا تھا، جس میں مظاہرین نے ڈی چوک پہنچنے کی کوشش کی اور کئی کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ہفتے کو بھی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن کی سربراہی میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دھرنا جاری رہا۔

اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ہوتی تو کنٹینرز لگا کر اسلام آباد کیوں بند کیا جاتا؟

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت اسلام آباد میں داخل ہو کر ڈی چوک یا پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا سیاسی جماعتوں میں اسٹیبلشمنٹ کی کبھی حمایت تو کبھی مخالفت کا کلچر ’اصولوں کی نہیں مفادات کی پالیسی ہے۔‘

ہفتے کو رات گئے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے حکومت سے مذاکرات کو جماعت کے کارکنان کی رہائی سے مشروط کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہےکہ ’جب تک ہر کارکن کو رہا نہیں کیا جاتا، ہم مذاکرات شروع نہیں کریں گے۔ ہم یہاں افراتفری پھیلانے نہیں آئے ہیں۔ اگر ہم افراتفری پھیلانا چاہتے تو ہر قیمت پر ڈی چوک پہنچ جاتے۔ اب اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو آ کر مذاکرات کرے، لیاقت بلوچ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی ہے۔‘

نعیم الرحمن نے مطالبات کی فہرست بتاتے ہوئے کہا ’بجلی کے بلوں میں کمی، تنخواہ دار طبقے کے ٹیکسز میں نیا سلیب ختم اور آئی پی پیز کا آڈٹ ہونا چاہیے۔

’مجرموں کو سزا ملنی چاہیے اور بہت سے آئی پی پیز جن کی مدت پوری ہو چکی ہے ان کو ختم کیا جائے اور صنعتوں پر عائد ایکسپورٹ ٹیکس ختم کیا جائے۔ یعنی ٹیکس کا نظام ختم کیا جائے۔‘

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ان مطالبات پر اتفاق نہ ہوا تو یہ احتجاج جاری رہے گا اور پھیلے گا، ’ہم کسی بھی وقت اسلام آباد میں داخل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں روکا نہیں جا سکتا۔‘

انہوں نے ’مطالبات نہ مانے جانے کی صورت میں ڈی چوک جانے‘ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا وہ ڈی چوک جا کر پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے سکتے ہیں اور پورے ملک میں احتجاج کی تعداد کو بڑھا سکتے ہیں، یہ پورے پاکستان میں پھیل جائے گا۔

دھرنے کا مقام تبدیل ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے بتایا کہ حکومت نے پورا اسلام آباد کنٹینر بند کر رکھا تھا۔ ان کے پاس کنٹینر کو ہٹانے کا ایک طریقہ تھ لیکن اس سے پولیس سے لڑائی ہوتی اور کارکن زخمی ہوتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امیر جماعت اسلامی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’حالات مزید خراب ہوتے اور حکومت کامیاب ہو جاتی۔ ہماری طرف سے پرامن سیاست کا ایک نیا کلچر ہمارے سامنے آیا ہے۔ لیکن اگر کوئی اسے ہماری کمزوری سمجھے تو ہم پھر اندر چلے جائیں گے، اور صرف یہاں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں جائیں گے۔

’آپ کہہ رہے ہیں کہ لوگوں کو مینڈیٹ دیا جائے اور دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کہہ رہی ہے کہ نئے انتخابات کرائے جائیں۔ آپ پی ٹی آئی کے اس مطالبے سے متفق ہیں؟‘ اس سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ انہیں نہیں لگتا کہ یہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے کارکنان کا مطالبہ ہے۔

حافظ نعیم الرحمن نے کہا انہیں ڈر ہے کہ کچھ لوگ کسی کا ایجنڈا مکمل کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ کیوں کہ اگر آپ کو فارم 45 سے ایک بار زبردستی نکال دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ وہ سب کچھ چھوڑنا چاہتے ہیں جو اس ملک میں آٹھ فروری کو ہوا تھا۔ لیکن ’آپ اسے قبول کرنا چاہتے ہیں اور ایک نیا سودا کرنا چاہتے ہیں۔ تو یہ پی ٹی آئی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا انہیں نہیں معلوم پی ٹی آئی بین الاقوامی برادری سے رابطے میں ہے یا قومی اسٹیبلشمنٹ سے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ کچھ جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ ہم الیکشن کیوں نہیں جیتے؟ وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم الیکشن جیت گئے۔

عمران خان کے حالیہ بیان ’پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن انہیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑوا رہی ہے‘ پر امیر جماعت اسلامی نے سوال اٹھایا سیاسی جماعتوں کو شروع سے ہی اس بات کا علم ہونا چاہیے تھا کہ کون کس سے لڑ رہا ہے اور لڑائی کا فائدہ کس کو ہوگا؟

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا “ہماری جماعتوں میں یہ کلچر ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ آپ کو سپورٹ کرتی ہے تو آپ اسٹیبلشمنٹ کے حق میں ہیں اور اگر یہ آپ کے خلاف ہے تو آپ اس کے خلاف ہیں۔ یہ اصولوں کی پالیسی نہیں مفادات کی پالیسی ہے۔ اگر انہوں نے یہ بیان دیا ہے تو ٹھیک ہے، انہیں پہل کرنی چاہیے اور اچھا اشارہ دینا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا اگر انہیں اسٹیبلشمنٹ کی ’حمایت حاصل ہوتی تو کنٹینر لگا کر اسلام آباد کیوں بند کیا جاتا؟ وہ ہمیں ڈی چوک پر بٹھا دیتے۔ پہلے لوگ ڈی چوک پر بیٹھ کر امپائر کی انگلیوں کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ہم اس کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں، ہمیں کسی امپائر کی انگلی کی ضرورت نہیں۔ ہم عوام کے لیے لڑ رہے ہیں، ہم کسی سے لڑنا نہیں چاہتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان