اسد کی ماسکو میں موجودگی، پوتن کے لیے خطرے کی گھنٹی؟

مستقبل میں شام میں کیا ہو گا؟ وہ آج کے عوامی جشن سے بہت مختلف ہو سکتا ہے، لیکن روس میں جو ہو گا وہ بھی تمام پیشگوئیوں کو غلط ثابت کر سکتا ہے۔

25 جنوری 2005 کو روسی صدر ولادی میر پوتن معذول شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ماسکو میں (اے ایف پی/ سرگئی ذوکوف)

یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ شام میں بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے نے مشرق وسطیٰ میں روس کی پوزیشن کو کمزور کر دیا ہے اور ماسکو کی بین الاقوامی حیثیت کو نقصان پہنچایا، چاہے وہ جیسی بھی تھی۔

ابتدائی طور پر مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں کے بعد، جن میں 2002 میں برطانیہ کا دورہ بھی شامل تھا، بشار الاسد ماسکو کے لیے تقریباً اتنے ہی قریبی اتحادی بن گئے، جتنے ان کے والد حافظ الاسد سوویت دور میں تھے۔

2015 میں روس نے فضائی مدد فراہم کی جس نے شامی خانہ جنگی کا رخ موڑنے میں مدد دی اور گذشتہ ہفتے حکومت مخالف فورسز کے دارالحکومت کے قریب پہنچنے پر ماسکو نے ہی بشاراسد اور ان کے خاندان کو پناہ دی۔

شام میں روس کے دو فوجی اڈوں کا جو بھی انجام ہو، مشرق وسطیٰ میں روس کی طاقت کا خاتمہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے، کم از کم فی الحال۔

اس صورت حال نے روس کو علاقائی سطح پر طاقت کی سیاست میں ایران جتنا ہی بڑا نقصان اٹھانے والا ملک بنا دیا ہے۔


تاہم روس کے لیے بشار الاسد کے زوال کا اثر صرف اس کی بیرون ملک فوجی اور سیاسی رسائی تک محدود نہیں ہو سکتا۔ اس کے اثرات خود روس کے اندر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

12 سال قبل عرب بہار کے نام سے مشہور بغاوتوں نے روس میں دو مختلف طریقوں سے اثر چھوڑا۔

ایک طرف، چاہے وہ جمہوریت قائم کرنے میں ناکام رہیں، ان بغاوتوں نے یہ ثابت کیا کہ لوگ، خاص طور پر نوجوان نسل، مزاحمت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

دوسری طرف ان ہنگاموں نے عراق اور لیبیا میں تقریباً ایک دہائی پہلے ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد استحکام کی قدر کرنے کا ایک اور سبق دیا۔

یہی دلیل ولادی میر پوتن نے 2012 میں دوبارہ صدارت کے لیے کھڑے ہونے کے خلاف مظاہروں کے جواب میں استعمال کی۔

چار سال قبل انہوں نے آئینی مدت کی پابندیوں پر پورا اترنے کے لیے وزیراعظم کے ساتھ عہدہ بدل لیا۔

تاہم، جب انہوں نے دوبارہ صدارت پر واپسی کا فیصلہ کیا تو یہ خاص طور پر نئی، کمیونسٹ دور کے بعد کی نسل کے لیے شدید غصے کا باعث بنا، جو تبدیلی کی امید کر رہی تھی۔

پوتن نے صدارت دوبارہ سنبھالی اور ایک مستحکم، اگرچہ بڑھتی ہوئی جابرانہ حکومت چلائی۔

انہوں نے 2014 میں یوکرین سے کرائمیا کو کامیابی اور زیادہ تر خون خرابے کے بغیر ضم کرنے کا فائدہ اٹھایا۔

کریملن میں فتح کی تقریبات چمکتے چہروں اور جگمگاتی آنکھوں کا سمندر تھیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کی تذلیل کے بعد، قومی وقار بحال ہو رہا تھا۔

بہت سے روسیوں کے لیے یہ شاید پوتن کی صدارت کا سب سے شاندار لمحہ تھا، لیکن ان سنہری دنوں کی یاد زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔

بشارالاسد کے زوال اور ان کی ماسکو میں جلاوطنی کو روسی میڈیا میں اب تک بہت کم کوریج ملی ہے، سوائے اس مختصر اعلان کے کہ انہیں اور ان کے خاندان کو انسانی بنیادوں پر پناہ دی گئی ہے، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ شام میں ہونے والے واقعات کو نظرانداز کیا گیا یا ان کے روس میں گہرا عدم استحکام پیدا کرنے کا امکان نہیں۔

بشارالاسد کے زوال نے نہ صرف روس کی بیرون ملک طاقت کی حدود کو ظاہر کیا بلکہ ذاتی اقتدار کی حدود کو بھی بے نقاب کیا۔

ان کی حکمرانی حیران کن انداز میں ختم ہوئی۔ تقسیم شدہ اور مایوس عوام اور کبھی وفادار رہنے والی فوج، جس نے بڑی تعداد میں منحرف ہونا شروع کر دیا، کے سامنے اقتدار قائم نہ رہ سکا۔

ایک مسلح اور منظم گروہ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اسے تقریباً کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

مستقبل میں شام میں کیا ہو گا؟ وہ آج کے عوامی جشن سے بہت مختلف ہو سکتا ہے، لیکن روس میں جو ہو گا وہ بھی تمام پیشگوئیوں کو غلط ثابت کر سکتا ہے۔

روس خوشحال ملک نہیں۔ عوامی رائے کے جائزے، جتنا ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے، ظاہر کرتے ہیں کہ نصف آبادی یوکرین میں جنگ کے خاتمے کی خواہش رکھتی ہے۔

اگر پوتن کا مکمل کنٹرول دکھائی دے رہا ہے تو اسد کے زوال کا سبق یہ ہے کہ کوئی رہنما بااختیار نظر آ سکتا ہے، یہاں تک کہ اچانک وہ اختیار سے محروم ہو جائے۔

اقتدار کا سرچشمہ ساکھ ہوتی اور یہ ساکھ پلک جھپکتے ہی ختم ہو سکتی ہے۔ ویگنر کی بغاوت کے مختصر دورانیے کے دوران سب سے حیران کن پہلو مزاحمت کا نہ ہونا تھا، نہ صرف سڑکوں پر بلکہ فوجی قیادت کے کچھ حصوں میں بھی، جب ان کے ٹینک ماسکو کی طرف موٹروے پر رواں دواں تھے۔

اگرچہ روس میں مسلح اپوزیشن کا وجود نہیں جیسا کہ شام میں تھا، لیکن یہ بعید نہیں کہ کچھ فوجی افسر موجودہ کارروائیوں سے خوش نہ ہوں یا کچھ یونٹ دشمن کے خلاف لڑنے کا عزم کھو بیٹھیں اور اپنے پیچھے حامیوں کا گروہ بنا لیں۔

آخرکار، یہی بڑی حد تک وہ طریقہ تھا جس کے ذریعے روس نے 1917 میں جرمنی کے ساتھ اپنی جنگ ختم کی۔

اس میں یہ امکان بھی شامل کیا جا سکتا ہے کہ پوتن، زار نکولس دوم کی طرح، مزاحمت کرنے کی بجائے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کریں۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے اسد کو بھی مشورہ دیا تھا کہ وہ جلاوطنی قبول کر لیں بجائے اس کے کہ وہ صدام حسین یا قذافی جیسے انجام کا خطرہ مول لیں۔

یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی واضح متبادل کی عدم موجودگی کوئی رکاوٹ بنے۔

بہت کم لوگوں نے سوچا تھا کہ اسد کو جس طریقے سے یا جس گروہ کے ذریعے معزول کیا گیا، وہ ایسا ہو گا اور جو لوگ معزول کرتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ بعد میں اقتدار بھی سنبھالیں۔

پوتن کے دن بھی گنے جا چکے ہیں یا ان کے اقتدار کا خاتمہ کس طرح ہوگا یہ صرف قیاس آرائی ہے، لیکن جب سے انہوں نے مغرب کے لیے مشکلات پیدا کرنا شروع کیں، جسے شاید 2007 میں میونخ سکیورٹی کانفرنس میں نیٹو میں توسیع پر ان کے حملے سے شمار کیا جا سکتا ہے، ان کا خاتمہ کچھ لوگوں کے نزدیک ایک حل کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

ہو سکتا ہے یہ درست ہو، یا شاید حالات مزید خراب ہو جائیں۔ میں اس بحث میں کسی طرفداری نہیں کرتا۔

میری احتیاط یہ ہے کہ یہ توقع نہ کی جائے کہ پوتن کے بغیر روس خود بخود بہت مختلف ہو گا، چاہے وہ ’بہتر‘ ہو یا ’بدتر۔‘

مستقل دوستوں یا دشمنوں کی بجائے قوموں کے مستقل مفادات پر مبنی حکمت اب بھی لاگو ہوتی ہے۔

یوکرین پر حملہ پوتن کے اس خوف کا نتیجہ تھا کہ یوکرین مغربی فوجی یا دفاعی بلاک میں شامل ہو سکتا ہے، جس سے روس کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

یہ روس کے قومی مفاد کا ایک تصور ہے، جو شاید پوتن کے بعد بھی قائم رہے گا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر