سات سال بعد وطن واپسی خواب لگا: جلا وطن شامی صحافی کی کہانی

شام کے معزول صدر بشار الاسد کے دور حکومت میں جلا وطنی اختیار کرنے والے بین الاقوامی ادارے کے فوٹوگرافر کی سات سال بعد وطن واپسی کی داستان

22 دسمبر، 2024 کو شامی فوٹوگرافر دمشق کے قریب دوما شہر میں اپنے گھر کا دورہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے فوٹوگرافر سمیر الدومی نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ شام میں اپنے آبائی شہر واپس جا سکیں گے، جہاں سے وہ بشار الاسد کی افواج کے محاصرے کے بعد سات سال قبل ایک سرنگ کے ذریعے فرار ہوئے تھے۔

دمشق کے قریب دوما کا علاقہ، جو کبھی حزب مخالف کا مضبوط گڑھ تھا، سابقہ حکومت کے خلاف اپنی مزاحمت کی وجہ سے شدید متاثر ہوا اور 2018 میں کیمیائی ہتھیاروں کے ایک نہایت ہولناک حملے کا نشانہ بنا۔

سمیر الدومی کا کہنا تھا کہ ’آج میرا دوبارہ یہاں واپس آنا ایک خواب کی طرح ہے۔ انقلاب ایک خواب تھا، محصور شہر اور شام سے باہر نکلنا ایک خواب تھا۔‘ 

اس 26 سالہ فوٹو گرافر کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ سوچنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے تھے کہ بشارالاسد کو زوال آئے گا، کیونکہ ان کی موجودگی ہمارے اندر اتنی سرائیت چکی تھی۔‘

شمالی فرانس میں اے ایف پی بیورو کے لیے تارکین وطن کے بحران کی کوریج کرنے والے ایوارڈ یافتہ فوٹوگرافر کا کہنا تھا کہ ’میرا سب سے بڑا خواب 13 سال کی جنگ کے بعد ایسے وقت شام واپس جانا بالکل اسی طرح تھا جیسے 2017 میں ایک نئی زندگی کے لیے اسے چھوڑ کر جانا میرا سب سے بڑا خواب تھا۔‘

سمیر، جن کی بہن کے علاوہ ان کے خاندان کے سبھی لوگ جلاوطنی میں ہیں، نے کہا: ’میں نے 19 سال کی عمر میں ملک چھوڑ دیا تھا۔ یہ میرا گھر ہے، میری ساری یادیں یہاں ہیں، میرا بچپن، میری جوانی۔

’میں نے اپنی زندگی دوما میں گزاری اسی گھر میں، میرے خاندان کو جان بچانے کے لیے یہاں سے جانا پڑا، جہاں اب میرا کزن رہتا ہے۔ گھر بدلا نہیں ہے، حالانکہ بم باری میں اوپری منزل تباہ ہو گئی تھی۔‘

انہوں نے بتایا: ’بیٹھنے کا کمرہ اب بھی وہی ہے، میرے والد کی پیاری لائبریری تبدیل نہیں ہوئی۔ وہ ہر صبح وہاں بیٹھ کر ان کتابوں کو پڑھتے تھے جو انہوں نے برسوں سے جمع کی تھیں – یہ ان کے لیے اپنے بچوں سے زیادہ اہم تھا۔

’میں اپنے بچپن کا سامان تلاش کرنے گیا تھا جو میری والدہ نے میرے لیے رکھا تھا لیکن مجھے وہ نہیں ملا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ اب موجود ہے بھی یا نہیں۔‘

سمیر کا کہنا تھا: ’مجھے یہاں سکون نہیں ملا، شاید اس لیے کہ مجھے اپنے خاندان یا ان لوگوں میں سے کوئی نہیں ملا جن سے میں قریب تھا۔ کچھ ملک چھوڑ چکے ہیں اور کچھ مارے گئے ہیں یا غائب ہو گئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ گذشتہ 13 سالوں میں لوگ انقلاب کے لیے پرامن احتجاج سے لے کر جنگ اور محاصرے اور پھر جلاوطنی پر مجبور ہونے تک بہت کچھ برداشت کر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہاں میری یادیں ہیں لیکن وہ اس جنگ سے جڑی ہوئی ہیں جو اس وقت شروع ہوئی تھی جب میں 13 برس کا تھا۔ میں جن حالات سے گزرا وہ بہت مشکل تھے، اور جس چیز نے مجھے متاثر کیا وہ میرے خاندان اور دوست تھے، اور وہ اب یہاں نہیں ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’شہر بدل گیا ہے۔ مجھے بم باری کی زد میں آنے والی عمارتیں، ملبہ یاد ہے۔ آج زندگی ایک طرح سے معمول پر آ گئی ہے اور شہر لوگوں کی واپسی کا منتظر ہے۔‘

2012 کے آخر سے بشارالاسد کی افواج نے دوما کا محاصرہ کر رکھا تھا اور واشنگٹن نے ان کی افواج پر اس علاقے میں کیمیائی حملے کا الزام عائد کیا تھا۔

فوٹو جرنلسٹ کے طور پر سمیر کا کیریئر اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے اور ان کے بھائیوں نے اپنے آس پاس جو کچھ ہو رہا تھا اس کی تصاویر لینا شروع کیں۔

’سکول بند ہونے کے بعد میں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ یہاں مرکزی مسجد کے سامنے احتجاج کی ویڈیو بنانا شروع کر دی، جہاں جمعہ کی نماز کے بعد دوما میں پہلا مظاہرہ ہوا، اور جہاں متاثرین کا پہلا جنازہ پڑھا گیا تھا۔‘

سمیر نے بتایا: ’میں نے اپنا کیمرہ ایک عمارت کی پہلی منزل پر لگایا جہاں سے مسجد نظر آتی ہے اور پھر بعد میں اپنے کپڑے تبدیل کیے تاکہ مجھے پہچانا اور گرفتار نہ کیا جا سکے۔ مظاہروں کی فلم بندی پر پابندی تھی۔

’جب سکیورٹی فورسز حملہ کرتی تھیں، تو میں اپنے فون سے سم کارڈ اور اپنے کیمرے سے میموری کارڈ نکال کر اپنے منہ میں ڈال لیتا تھا۔‘

اس طرح اگر پکڑے جاتے تو میں انہیں نگل سکتا تھا۔

مئی 2017 میں، سمیر حزب مخالف کی کھودی ہوئی ایک سرنگ کے ذریعے فرار ہو گئے اور بالآخر خود کو سابق جنگجوؤں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ادلب کے شمالی میں اپوزیشن کے ایک انکلیو میں پایا۔

انہوں نے کہا: ’میں نے سمیر الدومی (دوما سے تعلق رکھنے والے سمیر) کا نام اپنایا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ میرا تعلق کہیں اور سے ہے، حالانکہ میں جلاوطن تھا۔ میں نے دمشق میں رہنے والے اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے اپنا پہلا نام متعصم استعمال کرنا بند کر دیا۔‘

’فرانس میں، میں ایک خوش حال اور اچھی زندگی گزار رہا ہوں۔ میرا خاندان، دوست اور نوکری ہے۔ لیکن میرا تعلق کسی خاص جگہ سے نہیں ہے۔ جب میں شام واپس گیا تو مجھے لگا کہ میرا ایک ملک بھی ہے۔

’جب آپ بیرون ملک ہوتے ہیں تو آپ ’پناہ گزین‘ کے لفظ کے عادی ہو جاتے ہیں، آپ اپنی زندگی کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور ایک نئے معاشرے میں ضم ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن آپ کا ملک وہ جگہ ہے جو آپ کو ویسے ہی قبول کرتا ہے جیسے آپ ہیں۔ آپ کو کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سمیر نے کہا کہ ’جب میں نے شام چھوڑا تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن میں واپس آ سکوں گا۔ جب یہ خبر آئی تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ اسد کی حکومت گر سکے۔ بہت سے لوگ اب بھی صدمے میں ہیں اور خوفزدہ ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ایک ایسی حکومت جس سے لوگ خوفزدہ تھے، وہ کیسے گر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’میں جب دمشق کے المدان ضلع میں واپس آیا (جس نے طویل عرصے سے حکومت کی مخالفت کی تھی) تو میں اپنے آپ کو رونے سے نہ روک سکا۔

’میں اپنے پیاروں کے ساتھ نہ ہونے پر افسردہ ہوں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ واپس آئیں گے، بھلے ہی اس میں کچھ وقت لگے۔

’اب میرا خواب یہ ہے کہ ایک دن ہم سب شام میں دوبارہ اکٹھے ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا