پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی برطرفی کے لیے ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کر دیا ہے۔
دس صفحات پر مشتمل ریفرنس تحریک انصاف کے نائب صدر اعجاز چوہدری کے ذریعے دائر کیا گیا، جس میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پر حلف اور الیکشن کمیشن کے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے۔
ریفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے معاملے پر بھی چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ پر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
ریفرنس میں کہا گیا: 'چیف الیکشن کمشنر کا رویہ سوالیہ نشان ہے، اس لیے سکندر سلطان راجہ اس عہدے کے قابل نہیں ہیں۔'
پاکستان تحریک انصاف کے ریفرنس میں سکندر سلطان راجہ کو پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے ہٹانے کی استدعا کی گئی ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ایک سازش کے تحت تبدیل کیے جانے کا ذکر بھی کیا گیا۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ حکومت کی تبدیلی کی سازش کے باعث قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے 123 اراکین نے استعفے دیے، جنہیں قائم مقام سپیکر قاسم خان سوری نے منظور کرتے ہوئے 13 اپریل کو نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی کے موجودہ سپیکر راجہ پرویز اشرف نے استعفوں کی منظوری کےعمل کو دوبارہ شروع کیا، تاہم ان کے سامنے پاکستان تحریک انصاف کا کوئی ایم این اے پیش نہیں ہوا۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ اراکین قومی اسمبلی کے پیش نہ ہونے کے باوجود اسپیکر نے 28 جولائی کو کچھ استعفے منظور کر لیے، اور اگلے ہی روز الیکشن کمیشن نے نوٹیفیکیشن جاری کر دیے۔
پاکستان تحریک انصاف کے ریفرنس میں بتایا گیا کہ یہ عمل جماعت (پی ٹی آئی) کے خلاف چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا جانبدارانہ رویہ ظاہر کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی کے ریفرنس میں کہا گیا کہ مندرجہ بالا واقعات کے بعد موجودہ حکومت کے بعض اہم وزرا کے آڈیو لیکس بھی سامنے آئیں، جن میں حکومتی اہلکاروں کو پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرنے سے متعلق منصوبہ بندی کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف جو سکندر سلطان راجہ کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کرتی رہی ہے، نے کچھ عرصہ قبل بھی موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی نااہلی کی غرض سے سپریم جوڈیشل کونسل ہی کے پاس ریفرنس دائر کیا تھا، جو جلد ہی واپس لے لیا گیا تھا۔
پاکستان کے موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تعیناتی 24 مارچ 2020 کو پانچ سال کے لیے عمل میں آئی تھی، جبکہ اسی سال 27 مارچ کو انہوں نے عہدے کا حلف لیا تھا۔
وزیر اعظم اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے تین نام تجویز کرتے ہیں، جبکہ سپیکر قومی اسمبلی حکومتی اور حزب اختلاف کے اراکین پر مشتمل بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیتے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے تجویز کردہ ناموں میں سے کسی ایک امیدوار کی چیف الیکشن کمشنر کے طور سفارش کرتی ہے۔
صدر مملکت پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے نامزد امیدوار سے حلف لیتے اور ان کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کی مدت ملازمت پانچ سال ہوتی ہے، اور انہیں وہی سرکاری حیثیت حاصل ہوتی ہے جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کو دستیاب ہوتی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کو صدر مملکت یا سپریم کورٹ آف پاکستان یا پاکستان کی قومی اسمبلی میں مواخذے کے ذریعے ان کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل آف پاکستان ججوں کا ایک ادارہ ہے جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ججوں کے خلاف قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی سے متعلق الزامات کی سماعت کے لیے با اختیار ہے۔