خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سمیت مختلف اضلاع گذشتہ دو دنوں سے ’غیر معمولی‘ تیز ہواؤں کی لپیٹ میں ہیں، جس کی وجہ سے بجلی اور پانی کا نظام متاثر ہوا ہے۔
تیز ہواؤں کا یہ سلسلہ منگل (30 مارچ) سے شروع ہوا ہے اور محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ یہ جمعے کی دوپہر تک جاری رہے گا۔
پشاور میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر عالم زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وقفے وقفے سے شدید تیز ہواؤں کا سلسلہ غیرمعمولی ہے اور ماضی میں اس طرح نہیں دیکھا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’تیز ہواؤں کا یہ سلسلہ ایک لمحے کے لیے آجاتا ہے اور پھر ختم ہوجاتا ہے جو گذشتہ دو دن سے جاری ہے۔ سب سے زیادہ ہوا کی رفتار پشاور میں 80 کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر زیادہ تیز ہوا کی رفتار ضلع بنوں میں 37 کلو میٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی ہے۔‘
عالم زیب سے جب پوچھا گیا کہ کیا ماضی میں اس طرح کی تیز ہواؤں کا سلسلہ خیبر پختونخوا میں دیکھا گیا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’اس طرح کی خشک ہواؤں کا مشاہدہ پہلے نہیں کیا گیا، جن کے ساتھ دیگر موسمیاتی عنصر یعنی بارش شامل نہ ہو۔‘
واضح رہے کہ پشاور میں 2015 میں شدید آندھی آئی تھی، جس کی رفتار 110 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور اس وقت محکمہ موسمیات نے اس کو ’منی ٹونارڈو‘ ڈکلیئر تھا۔ ٹورناڈو وہ آندھی ہوتی ہے جو آسمانی بجلی کے ساتھ اوپر سے زمین کی طرف سفر کرتی ہے اور جس کے ساتھ بارش بھی ہوتی ہے۔
محکمہ موسمیات نے اس وقت بتایا تھا کہ پشاور میں 2015 میں آنے والی آندھی ملکی تاریخ میں تیسری سب سے تیز آندھی ریکارڈ ہوئی تھی۔ پہلی تیز ترین آندھی 2001 میں ضلع سرگودھا میں ریکارڈ ہوئی تھی، جس کی رفتار 193 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی اور اس سے کم ازکم 20 افراد کی اموات ہوئی تھیں۔
اسی طرح پاکستان میں دوسری تیز ترین آندھی پنجاب کے ضلع سیالکوٹ میں ریکارڈ کی گئی تھی، جس کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔
پشاور میں 2015 میں آنے والی مذکورہ آندھی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ غیر معمولی تیز ہواؤں کا سلسلہ دیکھا کیا گیا ہے، جو بارش کے بغیر ہے۔ حالیہ تیز ہواؤں سے پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں بجلی کا نظام متاثر ہوا ہے۔
پشاور کے بیشر علاقوں میں گذشتہ 30 گھنٹوں سے بجلی غائب ہے۔ پشاور الیکٹریک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے ترجمان شوکت افضل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حالیہ آندھی سے پشاور، چارسدہ، مردان، نوشہرہ، چکدرہ اور کوہاٹ میں بجلی صارفین کو ٹرپنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
افضل نے بتایا: ’شدید آندھی سے صوبے بھر میں پیسکو کے 44 فیڈرز متاثر ہوئے ہیں، جس کی مرمت پر پیسکو حکام ہنگامی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔‘
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پشاور کے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پشاور کے رہائشی نجیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تقریباً دو دنوں سے ان کے علاقے میں بجلی نہیں ہے، جس کی وجہ سے پانی کا مسئلہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔
نجیب نے بتایا کہ انہوں نے پیسکو کی ہیلپ لائن پر کال کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فون نہیں اٹھاتا۔ ’کم از کم حکام شہریوں کو اتنا بتادیں کہ بجلی کی مرمت میں کتنا وقت لگے گے کیونکہ گھروں میں پانی تک موجود نہیں ہے۔‘
پشاور میں تیز ہوائیں چلنے کی وجہ؟
محکمہ موسمیات پاکستان کے سربراہ اور محکمہ موسمیات کی عالمی تنظیم میں پاکستان کے نمائندہ ڈاکٹر غلام رسول نے پشاور میں تیز ہواؤں کی وجوہات کے بارے میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کے وسطی میدانی علاقوں میں شدیدگرمی پڑ رہی ہے، جہاں ہوا گرم ہونے کی وجہ سے اوپر اٹھ رہی ہے اور سرد علاقوں سے ہوا تیزی سے اس خلا کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
بقول ڈاکٹر غلام رسول: ’پشاور اور ملتان کے درجہ حرارت میں سات سے آٹھ ڈگری کا فرق ہے، جس کی وجہ سے تیز ہوائیں پشاور سے جنوب کی سمت چل رہی ہیں۔ اگلے ہفتے پشاور میں بارش کا بھی امکان ہےجبکہ ان تیز ہواؤں کا موسمیاتی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
غلام رسول سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہ تیز ہوائیں غیر معمولی ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ ہوائیں عموماً موسم بہار کے آغاز سے شروع ہوتی ہیں، جب جنوبی علاقوں میں موسم شدید گرم ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں شمالی علاقے سرد ہوتے ہیں۔‘
کس رفتار سے چلنے والی آندھی خطرناک ہوتی ہے؟
1774 میں آئرلینڈ میں پیدا ہونے والے فرانسس بیوفارڑ نے 1806 میں ایک پیمانہ بنایا تھا کہ کس رفتار سے چلنے والی ہوا کتنی خطرناک ہو گی اور اس کی علامات کیا ہوں گے۔
اسی سکیل کے مطابق ایک کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کم سے لے کر پانچ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوا کو ’ہلکی ہوا‘ کہا جاتا ہے اور اس رفتار پر چلنے والی ہوا سے زمین پر سے معمولی غبار بالائی پوزیشن میں اٹھتا ہے۔
بیوفارٹ سکیل کے مطابق چھ سے 11 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوا کو ’لائٹ بریز‘ کہا جاتا ہے۔ایسی ہوا انسانی چہرے پر محسوس کی جا سکتی ہے جبکہ اس سے درختوں کے پتے بھی ہلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
اس کے بعد 11 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 19 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے چلنے والی ہوا کو ’جینٹل بریز‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس ہوا سے درختوں کے پتے اور ٹہنیاں بھی ہلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح 19 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے لے کر 28 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جب ہوا چلتی ہے تو اسے ’ماڈریٹ بریز‘ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی ہوا سے غبار اڑنا شروع ہوجاتا ہے اور ساتھ میں زمین پر موجود ہلکے پلاسٹک یا کاغذ کے ٹکڑے ادھر ادھر اڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔
اس رفتار کے بعد ہوا میں شدت پیدا ہوجاتی ہے اور جب ہوا کی رفتار 29 کلومیٹر فی گھنٹہ سے لے کر 38 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جائے تو اس سے چھوٹے درخت ہلنا شروع ہو جاتے ہیں اور اس ہوا کو ’فریش بریز‘ کہا جاتا ہے۔
اسی طرح 49 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوا کو ’سٹرانگ بریز‘ کہا جاتا ہے، جس میں بڑے درخت بھی ہلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس رفتار سے چلنے والی ہوا کے ساتھ اگر بارش ہو تو آپ آسانی سے چھتری کھول کر نہیں جا سکتے کیونکہ چھتری کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد 50 سے 60 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوا کو ’نیئر گیل‘ (near gale) کہا جاتا ہے، جس سے پورے درخت ہلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس ہوا میں چلنا بھی مشکل ہوجاتا ہے جبکہ 62 سے 74 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوا کو ’گیل‘ اور 88 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے چلنے والی ہوا کو ’سٹرانگ گیل‘ کہا جاتا ہے۔
اس رفتار سے چلنے والی ہوا سے درخت اکھڑنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس سے انفراسٹرکچر کو نقصان کا بھی خدشہ ہوتا ہے یعنی گھروں کی دیواریں یا چھتیں متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس کے بعد چلنے والی ہوا کو طوفان کہا جاتا ہے، جس کی رفتار 117 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے، جس سے بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے اور آبادی، گھروں اور دیگر انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جب ہوا کی رفتار 117 سے لے کر 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ جائے تو اس کو ’طوفانی آندھی‘ (hurricane) کہا جاتا ہے جو پوری دنیا میں بہت کم ہوتا ہے لیکن اس سے پورے ملک کے انفرا سٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے۔